مابین مواز نہ کرو، تمہیں دونوں میں فرق اور تفاوت واضح ہوجائے گا، اور تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ آیا یہ صرف اس کا عفوو کرم اور رحمت ہے یا ہلاکت وبربادی ہے۔ پھر اپنی حسنات اور سیئات کا موازنہ کرو، یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ ان دونوں میں سے مقدار وصفت اور کم وکیف کے اعتبار سے کون راجح ہے، یہ موازنہ تمہاری اپنی ذات اور افعال کے درمیان ہوگا۔‘‘[1]
اپنے نفس کا محاسبہ کرنے والے ایک مرد مومن کی صفت میں حافظ ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے اپنی سند سے امام حسن بصری کا یہ قول نقل کیا ہے :
’’ایک مومن جب کوئی پسندیدہ اور مرغوب شے دیکھتا ہے تو کہتا ہے: واللہ! تو میری خواہش اور میری ضرورت تو ہے، لیکن واللہ! میرا تیرا کوئی ناطہ نہیں، ہائے ہائے! میرے تیرے درمیان آڑ واقع ہے، اور اگر کوئی چیز اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو پھر وہ اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہتا ہے، ہائے ہائے! میں نے اسے چاہا نہیں تھا، میرا اس چیز سے کیا لینا دینا؟ میر ا اس ے کیا واسطہ اور ناطہ؟ واللہ! میں کوئی عذر نہیں پیش کرتا، واللہ اب میں اس کی طرف کبھی نہیں جاؤں گا۔ واللہ! ان شاء اللہ اب میں اسے کبھی نہیں چاہوں گا، مومنین کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہے، اور ان کے اور ان کے ہلاکت کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ مومن دنیا میں قیدی اور اسیر ہے، وہ اپنی آزای کے لیے مسلسل تگ ودو کرتا رہتا ہے اور وہ موت تک کسی بھی چیز سے مطمئن نہیں ہوتا، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی آنکھ، کان، زبان اور تمام اعضاء وجوراح کے بار ے میں اس سے مواخذہ ہوگا۔‘‘[2]
محاسبہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے گناہ اور معصیت کا اقرار کرے تا کہ اس سے باز آسکے،
|