لگے رہتے ہیں۔[1]
سلف صالحین کا طریقۂ قیام اللیل جاننے کے لیے امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول بطور شاہد ہمارے لیے کافی ہے، فرماتے ہیں :
’’میں نے ایسے بہت سے لوگوں کی صحبت اختیار کی ہے جو اندھیری رات میں قیام اللیل کرتے ہیں اور کبھی سجدہ میں اپنے رب سے سرگوشی کرتے رہتے ہیں، وہ زیادہ بیدار رہنے سے نہیں اکتاتے، کیونکہ انہیں اس شب بیداری سے قیامت کے دن اچھے انجام کی امید ہے، اس بنیاد پر ان کی جسمانی تھکان ان کے لیے باعث خوشی ہے اور اس سبب سے وہ بہترین ثواب کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے جو سلف صالحین کے اچھے اعمال سے منافست کریں، اور اپنے نفس کے لیے معمولی کمی پر بھی راضی نہ ہوں، کیونکہ دنیا ختم ہوجائے گی اور بندے اپنے اعمال کا خود مشاہدہ کریں گے۔‘‘[2]
رات کے بیش قیمت اوقات شعراء کی طبیعت اور ان کے ذہن سے بھی بعید نہیں رہے، اسی وجہ سے انہوں نے راتوں کی خوب تعریف وتوصیف کی ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے قیام اللیل کے ذریعے سے رات کے ان قیمتی اوقات کو غنیمت سمجھنے والوں کی مدح میں کہا ہے:
یحیون لیلھم بطاعۃ ربھم
بتلاوۃ وتضرع وسؤال
وعیونھم تجری بفیض دموعھم
مثل انھمال الوابل الھطال
فی اللیل رھبان وعند جھادھم
لعدوھم من أشجع الأبطال
|