کرنا، اور دنیا کی ہما ہمی سے یکسو ہو کر قرآن کی تلاوت میں مشغول رہنا گویا کہ ساری کائنات اس کے سننے میں مشغول ہو، اور رات کے اس اندھیرے میں اس کے وحی خطاب اور گرانبار مشقت اور جفا کش محنت کے برداشت کرنے کا وہی توشہ ہے جس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار تھا اور جس کا آپ کے بعد ہر دور میں جملہ داعیان کو انتظار رہا ہے، اور یہی توشہ ہے جو لمبے دشوار گزار راستے میں دل کو جلا دیتا ہے، اور شیطانی وسوسے اور اس روشن راہ کے اردگرد حائل جملہ تاریکیوں سے اسے محفوظ رکھتا ہے۔
بلاشبہ دن بھر کی پر مشقت محنت، نیند کے غلبہ اور نرم ونازک بستر کی جاذبیت کے باوجود قیام اللیل پر متابعت بہت ہی سخت، اہم اور بدن کو تھکا دینے والا عمل ہے، لیکن اس کے باوجود قیام اللیل روح کو مسخر کرنے، اللہ کی دعوت کو قبول کرنے اور اللہ سے انسیت پیدا کرنے پر ابھارنے کا اہم ترین ذریعہ ہوتا ہے۔‘‘[1]
انسان کا دن بھر کی محنت و مشقت سے چور ہونے اور آرام و سکون کا خواہش مند ہونے کے باوجود اسلامی شعائر اور قیام اللیل پر محافظت اور اسے اپنانے کی ترغیب صرف تاکید الٰہی کی وجہ سے ہے، اس لیے اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے:
﴿ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ () وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ ﴾ (الانشراح: ۷، ۸)
’’پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا۔‘‘
آخرت کا ثواب تو بہت زیادہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرا کوئی بھی نہیں جان سکتا، یہ اللہ کی خاص رحمت ہے ا س لیے اس پر متعجب نہیں ہونا چاہیے۔
|