بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((یُنَزِّلُ رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ کُلَّ لَیْلَۃٍِ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلَثَ اللَّیْلِ، فَیَقُوْلُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَاسْتَجِیْبَ لَہٗ؟ مَنْ یَسْأَلُنِیْ فَأَعْطَیْتُہٗ؟ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرُلَہُ۔))[1]
’’جب رات کا تہائی حصہ باقی رہتا ہے تو ہمارا رب روزانہ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی پکار کا جواب دوں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو استغفار کرے اور میں اس کو بخش دوں ؟‘‘
دن بھر کی محنت، تھکان اور زندگی گزارنے کے لیے روزی کی تلاش وسعی کے بعد جب لوگ اپنے گرم بستروں پر جاتے ہیں تو اہل معاصی اس وقت اپنی خواہشات، شہوات اور معاصی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جب کہ ایک مومن اپنے رب کے حضورکھڑا ہو کر سرگوشی کرتا ہے اور اپنے عمل کے ذریعے سے ایک نئے دن کے استقبال کے لیے توشہ تیار کرتا ہے، اور یہ ایمانی توشہ عطیات الٰہی کی بقا وتسلسل اور انسان پر لادی گئی تکلیف ومشقت برداشت کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے جو ایک طویل استعداد وتیاری کی محتاج ہے۔
سید قطب رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’بلا کسی تردو اور پس وپیش اور بغیر کسی شک وشبہ اور کسی انجان آواز اور دل کش وجاذب نظر اشیاء اور رکاوٹ پر ادھر ادھر متوجہ ہوئے صلوٰۃ تہجد پر استقامت بہت ہی اہم اور گراں ہے، اس کے لیے طویل استعداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
بلاشبہ رات کے سناٹے میں جب لوگ سو رہے ہوں قیام اللیل کرنا، اور روز مرہ کی زندگی اور اس کی تاریکیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ کر اس کا نور اور فیض حاصل کرنا، اور تنہائی میں اس کے ساتھ انسیت حاصل
|