لہٰذا فرد، معاشرہ اور سماج کی اصلاح کے لیے قوانین وسنن کو جاننا ضروری ہے۔
جودت سعید لکھتے ہیں :
’’انسان کا اپنے اوپر ایک سب سے بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ وہ انسان، کائنات اور معاشرہ کے مابین پائے جانے والے تسخیری تعلق کو بروئے کار نہ لا کر خود مہمل چھوڑ دیتا ہے، اور اسے اس جگہ نہیں رکھ پاتا جو نفس وآفاق میں پائے جانے والی فطری صلاحیتوں کو مسخر کرسکے۔‘‘[1]
اسلامی تربیت کے عمومی اسلوب اور شخصی تربیت کے خصوصی اسلوب میں قدر مشترک یا رابطہ(یاتعلق) یہی ہے کہ وہ ایک صالح انسان کی تربیت میں بلاقید زمان ومکان ممدو معاون ہوتا ہے، البتہ تطبیق فرودی میں ہر انسان کی طبیعت، امکانیات، رحجانات، نفسیاتی میلان اور قوت ادراک کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتا ہے۔[2]
شخصی تربیت کی تکمیل کے تربوی اسالیب متعدد اور متنوع ہیں، ان میں سے کچھ اسلوب تو ایسے ہیں جنہیں اپنائے بغیر کوئی فرد دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے تاکیداً میں نے ان کا اور ایک مسلمان کے تزکیۂ نفس میں ان کی بلاواسطہ تاثیر کا تذکرہ کردیا ہے۔
کچھ اسلوب تو ایسے ہی جن کی ادائیگی میں ایک فرد دوسرے فرد سے مختلف ہوتا ہے، لہٰذا اس جگہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ صرف میر ی اپنی ذہنی اختراع ہے، اگر یہ صائب ہے تو اللہ کی توفیق و مدد سے ہے، اور اگر غلط ہے تو یہ میری اپنی ذات اور شیطان کی طرف سے ہے۔
ذیل میں ان وضع کردہ اسالیب کو تین بحثوں میں بیان کیا گیا ہے، اور ہر بحث میں الگ الگ موضوع کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔
|