وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَی یَدَیْ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّہُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّہُ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا۔))
((وَزَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ، أَوْ لِیَضْرِبَنَّ اللّٰہُ بِقَلُوْبِ بَعْضِکُمْ، عَلٰی بَعْضٍ ثُمَّ لَیَلْعَنَنَّکُمْ کَمَا لَعَنَہُمْ۔))[1]
’’سب سے پہلی(دین میں ) کوتاہی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے ملتا اور اس سے کہتا : اللہ سے ڈراور جو کام تو کرتا ہے اسے چھوڑ دے، اس لیے کہ وہ تیرے لیے حلال نہیں ہے، پھر جب کل کو(دوبارہ) اس سے ملتا جبکہ وہ اسی حال پر ہوتا تو اس کا یہ کام(گناہ پر اصرار) اسے اس کا ہم نوالہ، ہم پیالہ اور ہم مجلس بننے سے نہ روکتا(جبکہ گناہ پر اصرار کا تقاضا تھا وہ اس کے ساتھ کھانے پینے اور ہم نشینی سے گریز کرتا) پس جب انہوں نے ایسا کیا(یعنی یہ کوتاہی عام ہوگئی) تو اللہ تعالیٰ نے ان دلوں کو ٹکرا دیا۔‘‘
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں تلاوت فرمائیں :
﴿ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ () كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ () تَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ () وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴾ (المائدہ: ۷۸، ۸۱)
’’بنی اسرائیل کے کافروں پرداوؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے، آپس میں ایک
|