اٹک رہا ہوگا، اور اس کے پہلوؤں کو جہنم چھورہی ہوگی۔‘‘[1]
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ لوگ حساب کتاب میں بھی باہم مختلف ہوں گے۔ کسی سے آسان حساب ہوگا اور کسی سے مشکل، دنیا میں سب اپنے عمل کے مطابق، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس سے قیامت کے روز حساب لیا جائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا یہ فرمان الٰہی نہیں ہے کہ:
﴿فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ (7) فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا﴾(الانشقاق: ۷، ۸)
’’جسے ان کا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا اس سے نہایت آسان حساب لیا جائے گا۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ تو فقط نامۂ اعمال کی پیشی ہے، مگر جس سے حساب کا مناقشہ کردیا گیا اسے عذاب ہوجائے گا۔‘‘[2]
مناقشہ سے مراد پورا پورا حساب لینا، بڑے اعمال سے پیشتر چھوٹے اور معمولی اعمال کا مطالعہ کرنا اور عفو ودر گزر نہ کرنا ہے۔
ایک شخص نے سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’نجوی‘‘ (سرگوشی) کے بارے میں کیا کہتے سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے:
((یُدْنَی الْمُؤْمِنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ رَبِّہٖ عَزَّ وَجَلَّ حَتّٰی یَضَعَ عَلَیْہِ کَنَفَہٗ فَیُقَرِّرُہٗ بِذُنُوبِہٖ فَیَقُولُ ہَلْ تَعْرِفُ؟ فَیَقُولُ: اَیْ رَبِّ اَعْرِفُ
|