﴿وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ﴾ (مریم: ۹۵)
’’اور یہ سارے حضرات اس اللہ کے روبرو یکہ تنہا حاضر ہونے والے ہیں۔‘‘
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللَّہِ وَبَیْنَہُ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَـلَا یَرَی شَیْئًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ۔))[1]
’’تم میں سے ہر شخص سے(براہ راست) اس کا رب ہم کلام ہوگا، اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی اور ترجمان نہیں ہوگا۔ پس انسان اپنے دائیں جانب دیکھے گا تو اسے اپنے آگے بھیجے ہوئے عمل ہی نظر آئیں گے، بائیں جانب دیکھے گا تو ادھر بھی اپنے کرتوت ہی دیکھے گا، اور اپنے سامنے دیکھے گا تو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اس کے چہرے کے سامنے ہوگی، پس تم آگ سے بچو! اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ہی ہو۔‘‘
ایک انسان جب دنیا میں ایک بادشاہ یا کسی بڑے شخص سے ملاقات کے وقت ہیبت اور خوف محسوس کرتا ہے تو پھر بادشاہوں کا بادشاہ، آقاؤں کے آقا اور زمین وآسمان کی سب سے عظیم ہستی سے ملاقات کے وقت اس کے خوف کا کیا عالم ہوگا؟ کیسا سوال ہوگا اور کیا جواب دے گا۔ لہٰذا اے اللہ کے بندے! ذرا غور تو کر کہ نامۂ اعمال کی تقسیم اور حساب وکتاب کے ترازو قائم کردیے جانے کے بعد جب تجھے سوال وجواب اور حساب وکتاب کے لیے پکارا جائے گا تو اس وقت تیرا کیا حال ہوگا، کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے :
مثل وقوفک یوم العرض عریانا
مستوحشا قلق الأحشاء حیرانا
|