پاس لے جایا جائے گا جہاں اسے دنیا کی زندگی میں پیش کردہ اعمال کی جزا ملے گی۔
ارشاد الٰہی ہے:
﴿يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا وَتُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ (النحل: ۱۱۱)
’’جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لیے لڑتا جھگڑتا آئے گا، اور ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر(مطلقاً) ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَا أَسْلَفَتْ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ﴾ (یونس: ۳۰)
’’اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کیے ہوئے کاموں کی جانچ کرلے گا، اور وہ سب لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور ان ساری لن ترانیاں ہوا ہوجائیں گی۔‘‘
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے روز حساب وکتاب کے مقام پر ہر نفس کو اپنے پیش کردہ نیک و بد عمل کی معلومات اور واقفیت حاصل ہوگی۔[1]
جب لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے تو ہر شخص اپنے نفس کا ذمہ دار ہوگا، اسے اپنے قریب ترین رشتہ دار کی بھی فکر نہ ہوگی، اور نہ اس کی طرف مڑ کر دیکھے گا، کیونکہ بڑا سخت حساب والا مشکل ترین دن ہوگا۔ اس مقام پر اعمال نامے پھیلائے جائیں گے، اور ہر شخص اپنے اعمال نامے پر واقف ہوگا، اور اپنے پیش کردہ اعمال دیکھے گا، اور اسے اللہ رب العالمین کے روبرو بلاواسطہ یا بلا سفارش پیش کیا جائے گا۔
فرمان الٰہی ہے:
|