یاد رہے کہ جس طر ح شیطا ن انسا ن کے دل میں وسو سہ ڈا لتا ہے،اسی طر ح انسا ن کا اپنا نفس بھی وسو سہ میں مبتلا کرتا ہے اور اس کا سبب انسان کے کسب اور اختیا ر سے ہے چنانچہ اس کا دل جسقد ر شہو ات اور دنیا وی لذات کی محبت میں گر فتا ر ہو گا،اسی قدر وہ وساو س میں زیا دہ مبتلا ہو گا۔جب دل کہیں اور اٹکا ہوا ہو،منکر ات و فو احش میں گر فتار ہو،تو نما ز میں دل خا ک لگے گا،دل ان خر افات سے جسقد ر فا رغ ہو گا نما ز میں اسی قدرزیادہ دل لگے گا۔حضرت شیخ عبد القا در جیلا نی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ فرشتہ رحمت اس گھر میں نہیں آ تا جس میں تصوریں آ ویزاں ہوں تو بھلا اس دل میں اللہ اپنی محبت کس طرح ڈا لے گا جو صنم خا نہ بنا ہوا ہو۔(الفتح الر با نی ) تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں ؟ اور حد یث پا ک میں جو ’’شر نفس ‘‘ سے پناہ ما نگنے کا ذکر ہے اس شر کی ایک صورت دنیا وی شہو ات سے محبت ہے،جس میں گر فتا ر ہو کر انسا ن اپنے محبو ب حقیقی سے دو ر ہو جاتا ہے۔لہٰذا اس قسم کے وساو س ہوں تو سمجھ لینا چا ہیے کہ اس کا حصو ل یا اس پر قد رت تو نما ز سے فا رغ ہو کر ہی ہو گی۔لہٰذ ا ان کے بارے میں وسو سہ کاکیا فا ئدہ ؟،اور یہ بھی یا د رکھنا چا ہیے کہ رب ذو الجلا ل و الا کر ام کے سامنے کھڑے ہوکر دنیا ئے مردا ر و غدار کے پیچھے پڑا ہوا ہوں،اس سے بڑی بے مرو تی اور کیا ہو گی،یوں ا ن وساو س کے دو ر کر نے کی کو شش کرنی چاہیے اور اپنی تو جہ نما ز کی طرف مبذو ل کر نی چا ہیے،یہ وسو سہ ایک بار نہیں بلکہ با ر با ر آ ئے گا،کہ وسو سہ میں تکر ار کے معنی پا ئے جا تے ہیں۔ شیخ الا سلا م ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے،کہ’’ وسو سہ یا شیطا ن کی حیثیت چو ر یا ڈا کو کی ہے،مسا فر منزل مقصو د تک جا نا چا ہتا ہے مگر چو ر راستہ رو ک لیتا ہے،اسی طر ح بندہ مو من سیرالی اللہ میں مصروف ہوتا ہے اور نماز میں اپنے محبو ب کا قر ب حا صل کر نا چاہتا ہے مگر شیطا ن اس کا راستہ رو ک لیتا ہے‘‘، اس کی توجہ اس کے محبوب سے پھیر دیتا ہے،بندہ مومن کو چا ہیے کہ وہ اپنا سفر جا ری رکھے اور شیطا ن سے الجھنے کی کوشش نہ کرے۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہد ایت کے مطا بق تعو ذ کے ذر یعہ شیطا ن سے پناہ مانگے،اﷲ تعالیٰ کا |