Maktaba Wahhabi

339 - 366
یعنی:میں نے اپنے بندوں کومسلمان پیداکیاہے اورشیاطین نے انہیں گمراہ کرڈالا۔ واضح ہوکہ ان احادیث کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے،بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرشخص کو یقیناً فطرتِ اسلام پر پیدا کیا ہے، اور اس کے اندر فطرۃً قبولِ حق کا مادہ رکھا ہے،مگر وہ علم سے مالامال ہوکر تو پیدا نہیں ہوتا،بلکہ جاہل پیداہوتاہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [وَاللہُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا۰ۙ ] [1] یعنی:اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس طرح نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔اور اسی چیز کوحدیثِ زیرِ بحث میں گمراہی سے تعبیر کیاگیا ہے؛کیونکہ عدمِ علم بھی ضلالت ہی شمار ہوتی ہے،کما فی قولہ تعالیٰ: [وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى][2]جس کامعنی یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے تجھے غیر عالم پایا پس (علمِ صحیح) کی ہدایت دے دی۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر انسان پیداتو سلیم الفطرت ہوتاہے ،مگر جاہل ہوتا ہے،اس کے اندر بالقوۃ قبولِ حق کی استعداد ہوتی ہے ،اب اگر وہ انبیاءِ کرام کی تعلیمات کو اپناتاہے،جو کہ ہدایت کا منبع ومخزن ہوتی ہیںاور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتارہتا ہے، تو وہ یقیناً زیورِ ہدایت سے آراستہ وپیراستہ ہوجائے گا،لیکن اگر وہ اپنے اندر فطرۃً قبولِ حق کی استعداد کے باوجود،وحیٔ الٰہی سے ہدایت حاصل نہیں کرتا اورنہ ہی صدقِ دل سے ہدایت کی دعاکرتاہے تووہ گمراہ ہی رہتا ہے ۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اسی نکتہ کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
Flag Counter