Maktaba Wahhabi

226 - 366
’’إن أمتی لا تجتمع علی الضلالۃ ‘‘[1] یعنی ’’میری اُمت (صحابۂ کرام )نا حق پر مجتمع نہیں ہوسکتی‘‘ اس حدیث سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام جس مسئلہ پر اجماع اختیار کرینگے، وہ حق ہی ہوگا،گویا ان کے اجتماع کو معصوم قرار دیا گیا ہے۔ یہاں ایک اور نکتہ آسانی سے سمجھا جاسکتاہے، اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعِ صحابہ کو معصوم قرار دیا ہے، کسی ایک صحابی کو نہیں، تو پھر بعد کے ادوار میں کوئی ایک شخصیت یا امام کیسے معصوم ہوسکتا ہے، جبکہ یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ صحابۂ کرام ، تنزیلِ وحی کے دور کے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں،ان کے زمانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیر القرون‘‘ قرار دیا ہے ،اور ان کے منہج کو قرآنِ پاک نے جابجا پوری اُمت کیلئے بطورِ مثال پیش کیا ہے، اوربعد کے ادوار میں فتنوں کی نشاندہی موجودہے،صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے: ’’ إن ھذہ الأمۃ جعل عافیتھا فی أولھا وإن آخرھا سیصیبھا بلاء وأمور تنکرونھا‘‘ [2] یعنی :’’ اس اُمت کی تمام تر عافیت وسعادت پہلے دور میں ،یعنی صحابۂ کرام کے دور میں رکھی گئی ہے جبکہ بعد کے ادوار میں فتنے ہونگے اور ایسے ایسے مسائل کہ جنہیں تم بالکل قبول
Flag Counter