Maktaba Wahhabi

77 - 523
﴿ قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾(یوسف: 108) ’’ کہہ دو کہ میرا رستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں(ازروئے یقین و برہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی(لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ 2۔ تصدیق:… یعنی تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے پیغامات اور خصوصاً جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(اللہ تعالیٰ کی طرف سے) لے کر آئے ہیں، ان سب کی تصدیق کرنا۔اور ان میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہ ہو۔ 3۔ تسلیم:… تسلیم کامعنی تصدیق سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ بہت سارے لوگ انبیاء علیہم السلام کی تصدیق تو کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کی اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرتے۔ اس لیے مؤلف رحمہ اللہ نے پہلے تصدیق سے شروع کیا ہے۔اور اس سے مراد جو کچھ تمام انبیاء لے کر آئے، عمومی طور پر ان تمام انبیاء اور ان کے پیغامات کی تصدیق اور خصوصی طور پر جناب نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے پیغام، خواہ وہ قولی ہو یا فعلی ہو یا تقریری، ان سب کی تصدیق۔ تسلیم کی دو قسمیں ہیں: دل سے تسلیم کرنا، کہ اس میں کو ئی شک و شبہ اور ادنی شائبہ تک باقی نہ ہواور تسلیم اعضاء: کہ انسان اپنے اعضاء سے اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کو بجالائے۔ کسی انسان کا اسلام اس وقت تک صحیح معتبر نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان تینوں امور کو بجا نہ لائے۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(جس کا گمان… اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک نہیں پہنچی): یعنی جوشخص یہ گمان کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دین حق کے بیان کرنے، اس کے واضح کرنے میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں تک پہنچانے میں کوئی کمی کی ہے اور اس کے لیے گنجائش ہے کہ وہ دین میں قیل و قال کرے، یا اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ کرے۔ ایسا انسان لوگوں کے لیے شر اور برائی چاہتا ہے۔ اس میں خیر کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوری امانت کے ساتھ سارے کا سارا دین اپنے سے بعد والے لوگوں تک پہنچادیا تھا،اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ایسی بدگمانی کرنے والاانسان جھوٹا گمراہ اور عنقریب ہلاک ہونے والا ہے۔کیونکہ یہ انسان دوسرے الفاظ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر خیانت کا الزام لگا رہا ہے۔ حالانکہ قرآن و حدیث کاہم تک سالم پہنچنا، اورپھرقرآن و سنت کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے فیصلے ان کی علمی و عقلی اور دینی امانت کے گواہ ہیں۔ جس کے پاس جتنی بھی حدیث تھی، ا س نے اس حدیث کی نشرو اشاعت میں کسی طرح بھی کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ بلکہ اللہ کے دین کا حق ادا کردیا، مگر گمراہ لوگ اس پر جلتے ہیں، او ران کے خلاف بد گمانی پھیلاتے ہیں۔ اعاذنا اللّٰه من شرھم۔
Flag Counter