Maktaba Wahhabi

316 - 523
آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائے گا اسے معاف کردیا گیا۔(مسلم) 16۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہوکر مکہ سے چلے اور اسے مسجدِ اقصیٰ کے دروازے کی کنڈی میں بندھا ہوا چھوڑ کر آسمانوں کی سیر کے لیے روانہ ہوگئے، پھر اسی رات کی صبح مکہ واپس آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ سے ہر تکلیف اورہر حزن وملال زائل ہوگیا تھا اور پہلے سے کہیں زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون واطمینان حاصل ہوچکا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راتوں رات سفر بیت المقدس کیا تو کچھ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہنے لگے، کیا تم اس بات کی تصدیق کرو گے ؟ تووہ کہتے ہیں کہ میں تو اس سے بڑی بات(خبر السمائ) کی تصدیق کرتا ہوں، تو یہ کیا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا ہے تو میں تصدیق کر تا ہوں۔ اسی وجہ سے انہیں ’’ صدیق‘‘ کا خطاب ملا۔[1] اسراء و معراج میں فرق مسئلہ اسراء و معراج بھی عقائدکے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی رات میں بیت الحرام سے بیت المقدس کی سیر کی، یہ زمینی سفر اسراء کہلاتا ہے اور وہاں سے آسمانوں تک اور عالم بالا کی طرف تشریف لے گئے،جنت اور جہنم کی سیر کی، یہ سفر معراج کہلاتاہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص ومعجزات میں سے ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء ہوئی تو آپ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو بیت المقدس میں بھی دیکھا، وہاں ان کی امامت کرائی، اور آسمانوں میں بھی ان سے ملاقات ہوئی۔اسراء کا سفربیت المقدس تک تمام ہوتا ہے۔ بیت المقدس سے آگے عالم بالا کا سفر معراج کہلاتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ پہلی نشانی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس جاتے ہوئے راستہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو سرخ ٹیلے کے پاس اپنی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ لیکن جب بیت المقدس پہنچے تو موسیٰ علیہ السلام پہلے سے وہاں موجود تھے۔[2] دوسری نشانی: جن انبیاء کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں امامت کرائی، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے براق پر سوار ہوکر آسمانی سفر پر نکلے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں پر پہنچے تو ان انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی سواری کے، اپنی قدرت سے پہلے ہی آسمانوں پر پہنچا دیا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سواری کا بندو بست بطور اکرام کیا گیا تھا، ورنہ اللہ اس بات پر قادر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بغیر کسی سواری کے آسمانوں پر لے جاتا۔ تیسری نشانی: انبیاء کرام علیہم السلام کی(برزخی)زندگی ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام کو برزخی زنگی حاصل ہے، مگر اس برزخی زندگی کو اس دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
Flag Counter