Maktaba Wahhabi

219 - 523
سفر میں نمازقصر 42۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ((وتقصیر الصلاۃ في السفر سنۃ۔)) ’’سفر میں نماز قصر کرنا سنت ہے۔ ‘‘ شرح،…شریعت اسلامیہ میں دی گئی ایک رخصت سفر میں نماز کا قصر کرنا ہے۔ اس سے مرادیہ ہے کہ جو نمازیں چار رکعت ہیں انہیں صرف دو ہی پڑھا جائے گا۔ جب کہ باقی نمازیں اپنے حال پر رہیں گی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا﴾(النساء: 101) ’’اور جب تم مسافر ہو زمین میں تو نماز قصر کرنے میں(گھٹانے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں ہے اگر تم کو ڈر ہو کافروں کے ستانے کا بے شک کافر تمھارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘ آیت سے ظاہری طور پر ایسے لگتا ہے کہ نماز قصر کرنا صرف خوف کی حالت میں جائز ہے۔ لیکن یہ اشکال اس وقت زائل ہوجاتا ہے جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امن کی حالت میں بھی دوران ِ سفر چار رکعت والی نماز کو دو ہی پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ اسی چیز کو بنیاد بناکر امام أحمد بن الحسین بن علی بن موسیٰ المعروف ابو بکر البیھقي نے اپنی کتاب [السنن الصغری ] میں باب قائم کیا ہے، ((باب الرخصۃ للمسافر في قصر الصلاۃ وإن کان آمنا)) اس باب میں مذکورہ بالا آیت کے حوالہ سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول ! کیا ماجرا ہے کہ ہم(حالت سفر میں) امن میں ہوتے ہیں، مگر نماز قصر کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تلک صدقۃ، تصدق اللّٰه بہا علیکم، فأقبلوا من اللّٰه صدقتہ))[1] ’’ یہ ایک صدقہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے، پس اللہ تعالیٰ سے اس کا صدقہ قبول کرو۔‘‘ نماز قصر کرنا ایک رخصت ہے، جس کا دل چاہے وہ قصر کرے، اور جو چاہے پوری پڑھ لے، لیکن قصر کرنا افضل ہے۔ مصنف نے اسے عقیدہ کے مسائل میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول کرنا عقیدہ سے متعلق ہے، اور دوسرا مقصود ان جھوٹے متشدد صوفیوں پر رد کرنا ہے جو اس رخصت کا انکار کرتے ہیں۔
Flag Counter