Maktaba Wahhabi

116 - 523
مبارکہ سے بھی دلیل دینا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ 17۔ سترہویں دلیل:… انسان کی غفلت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ o حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَo﴾(التکاثر:1۔2) ’’(لوگو)تم کو(مال اور اولاد کے)زیادہ ہونے کی خواہش نے(اللہ تعالیٰ کی یادسے)غافل کردیا۔یہاں تک کہ تم قبروں میں جاپہنچے۔‘‘ اس کی تفسیر میں علامہ طحاوی نے مشکل الآثار میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے: وہ فرماتے ہیں: ’’ ہم عذاب قبر کے بارے میں شک میں تھے یہاں تک کہ سورت تکاثر نازل ہوگئی۔ ‘‘[1] احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل کتاب وسنت کی تعلیمات میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ حدیث شریف قرآنی مسائل کی وضاحت اور تفسیر ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں عذابِ قبر کا مسئلہ وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ جس میں شک و شبہ کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی اور نہ ہی اپنی عقل کی وجہ سے اتنی دلیلوں کا انکار کیا جاسکتا ہے۔ 18۔ پہلی دلیل:…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر میں سوال و جواب کے وقت اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے، اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دعا کرنے کا حکم دیتے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: ((کان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ، فقال: استغفروا لأخیکم، و سلوا لہ التثبیت، فإنہ الآن یسأل)) [2] ’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردے کو دفن کرکے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے، اور فرماتے: اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو، بیشک اب اس سے سوال کیے جارہے ہیں۔‘‘ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ میت سے اس قبر میں سوال و جواب کی نشست ہوتی ہے، اوراسی سوال وجواب میں کامیابی یا ناکامی پر عذاب و ثواب کا فیصلہ ہوتا ہے۔ 19۔ دوسری دلیل:…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اس عذاب ِ قبر کا احساس دلایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے اہل قبر کے بارے میں دریافت کیا، اور پھر اپنے صحابہ کو عذاب ِ قبر سے پناہ مانگنے
Flag Counter