Maktaba Wahhabi

359 - 523
’’ ہلاکت دو چیزوں میں ہے۔ ایک خود پسندی اور دوسرا نا امیدی۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اور اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھے…): حدیث قدسی میں ہے: ((أنا عند ظن عبدي بي،وأنا معہ إذا دعاني۔)) متفق علیہ ’’میں اپنے بندہ کے میرے متعلق حسن ظن کے پاس ہوں، اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کافرمان:(اپنے گناہوں سے ڈر کر رہے …): اس لیے کہ کتاب و سنت کی نصوص اور منہج ِ سلف صالحین کے مطابق مسلمان کے امورِ قلب اور عبادت کو تین ارکان پر مشتمل ہونا چاہیے: 1۔ محبت: یعنی اللہ تعالیٰ کی کامل محبت، اور اس کی تعظیم و تقدیس۔ 2۔ امید: امید خوف پر مقدم ہے، چونکہ اصل چیز اللہ تعالیٰ سے خیرو بھلائی کی امید ہے۔ 3۔ خوف: مسلمان کی عبادت میں ان تینوں ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ ان تین ارکان میں سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا میزان ہمیشہ ایک سا رہنا چاہیے۔ اس میں فرق نہ آنے پائے۔ باقی خوف اور امید میں ان میں سے کبھی کبھا ر ایک رکن دوسرے پر غالب آسکتا ہے۔ مثال کے طور پرجب کسی کو گناہ میں مبتلا دیکھا، یا پھر کسی بڑے گناہ کا ارتکاب ہوگیا تو خوف کا پہلو بڑھ گیا، اور عذاب کا ڈر محسوس ہونے لگا اور جب کوئی اچھا اور نیک کام کیا تو اللہ تعالیٰ سے بھلائی اور خیر کی امیدبڑھ گئی۔ خاص کر شدت مرض میں اور موت کے وقت انسان کو اللہ تعالیٰ سے امید ہی دلانی چاہیے، او راس وقت خوف سے دور رکھنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے والے امور کی اطلاع 94۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والإیمان بأن اللّٰه تبارک و تعالیٰ أطلع نبیہ صلي اللّٰه عليه وسلم علی ما یکون في أمتہ إلی یوم القیامۃ۔)) ’’اور اس بات پر ایمان رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قیامت تک ہونے والے امور پر مطلع کیا ہے۔‘‘ شرح: …اللہ تعالیٰ کے علاوہ غیب کا علم کسی کو نہیں۔ ہر قسم کا غیب اسی کے لیے ہے، فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾(الانعام: 59) ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے
Flag Counter