Maktaba Wahhabi

251 - 523
تمہارے ساتھ ملائکہ پر فخر کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں، میرے بندے میرے پاس پراگندہ حالت میں آئے ہیں، ہر ایک گہری گھاٹی سے ‘‘وہ میری رحمت کی امید کرتے ہیں،(اے میرے بندو!) اگر تمہارے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں، یا بارش کے قطروں کے برابر ہوں، یا سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں، تو میں انہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو ! اب اس حال میں چل پڑو کہ تمہارے گناہ بخش دیے گئے ہیں، اور ان کے گناہ بھی جن کے لیے تم نے شفاعت کی ہے۔‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں وقوف کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کو آگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بلال رضی اللہ عنہ سے) فرمایا، اے بلال! لوگوں کو چپ کراؤ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اوراعلان کیا، ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے کے لیے خاموش ہوجاؤ، لوگ خاموش ہوگئے۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابھی ابھی جبریل امین میرے پاس تشریف لائے تھے۔ انہوں نے مجھ پر میرے رب کی طرف سے سلام پیش کیا، اور فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے اہل عرفات کی مغفرت کردی ہے۔‘‘یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا، ’’اے اللہ کے رسول! کیا یہ ہمارے لیے خاص ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’ یہ تمہارے لیے ہے، اور تمہارے بعد ان لوگوں کے لیے ہے جو قیامت کے دن تک آئیں گے۔‘‘تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، ’’ اللہ کی خیر بہت زیادہ ہوگئی اور بہت ہی اچھی ہوگئی۔‘‘ قیامت کو نازل ہونا مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں، و((یَنْزِلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘۔و’’ جَہَنَّمُ لَا یَزَالُ یُطْرَحُ فِیْہَا حَتّٰی یَضَعُ عَلَیْہَا قَدَمَہٗ جَلَّ ثَنَاؤُہٗ۔)) [1] ’’اور قیامت والے دن نازل ہوں گے ‘‘اور جہنم میں لوگ اس وقت تک پھینکے جاتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ-اپنی شان کے مطابق-اپناپاؤں اس پر رکھ دے۔‘‘ شرح، … قرآن اور حدیث میں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کرنے کے لیے آنا ثابت ہے۔ جب کہ قیامت والے دن نازل ہونا بھی بعض آثار میں وارد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَجَائَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً ٭وَجِیْء َ یَوْمَئِذٍ بِجَہَنَّمَ یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّی لَہُ
Flag Counter