Maktaba Wahhabi

215 - 523
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ((اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَبْسُطُ یَدَہٗ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْٓئُ النَّہَارَ وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بِالنَّہَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا)) [1] ’’ اللہ تعالیٰ رات کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا رات کو تائب ہوجائے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کو برائی کرنے والا دن کو توبہ کرلے اور یہ سلسلہ مغرب سے سورج طلوع ہونے(قیامت کے دن) تک جاری رہے گا۔‘‘ ْ یہاں پر ایک مسئلہ ہے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن کے کرنے پر توبہ کی توفیق سلب کر لی جاتی ہے۔ مگر یہ کس انسان کے حق میں ہے، کچھ متعین طور پر نہیں کہا جاسکتا۔ ایسے ہی بدعتی جب اپنی بدعت پر مصر رہے تو اسے توبہ کی توفیق سلب کر لی جاتی ہے۔ اسی بنا پر سلف صالحین فرماتے ہیں کہ،’’ صاحب ِ بدعت کو توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔‘‘ بدعتی سے مراد وہ انسان ہے جو جان بوجھ کر حجت قائم ہونے اور دلیل ظاہر ہونے کے بعدبھی عناد کی وجہ سے بدعت کو اختیار کررہا ہو۔ایسے لوگ اگرعقلی طور پر عاجزآکر ایک بدعت کو ترک بھی کردیں تو انہیں سنت کے اتباع کی توفیق نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ کسی دوسری بدعت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے نصیب میں گمراہی لکھ دی گئی ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے نصیب میں ہدایت لکھی ہوتی تویہ لوگ ضرور حق کی طرف رجوع کرلیتے۔ رہے وہ لوگ جو جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، یا ان کے پاس کوئی غلط تأویل ہے، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ سے امید کی جاسکتی ہے کہ اسے توبہ کی توفیق مل جائے گی۔کیونکہ وہ اپنے عمل میں مخلص ہیں، ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی تلاش ہے، مگر وہ اس تلاش میں غلط راہ پر چل نکلے ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ علم کو اس کے اصلی مصادر کتاب و سنت سے لینے کے ساتھ ساتھ ہر وقت کثرت کے ساتھ استغفار کرتا رہے، اور کسی بھی گناہ کے سر زد ہوجانے پر فوراً توبہ کرے تاکہ یہ گناہ اس کے دل میں جگہ نہ پکڑ لے، اور پھر جب دل سارا کالا ہوجائے تو اس گناہ کا ترک کرنا یا اس سے توبہ کرنا ناممکن ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو سچی توبہ نصیب فرمائے، اور اپنی حفاظت اورامان میں رکھے۔ آمین۔ رجم بر حق ہے 40۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والرجم حق۔)) ’’اور(شادی شدہ زانی کو) رجم کرنا حق ہے۔
Flag Counter