Maktaba Wahhabi

200 - 523
کی مصلحت کے لیے کریں تو یہ خیر و رحمت ہے اور یہی شرعی طریقہ ہے۔ دوسری حالت: یہ ہے کہ عوام الناس سے اس بارے میں رائے لی جائے اور انہیں حق ِ انتخاب دیا جائے۔ تو اس صورت میں لوگ اپنی خواہشات کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔اور وہ اس کے مطابق ہی چناؤ بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاملہ شرعی تقاضوں سے خارج ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ آگے آتے ہیں جو شریر اور فاسد قسم کے ہوں۔ اس طرح عظیم تر دینی مصلحتیں ختم ہوجاتی ہیں اور افرا تفری اورلوٹ مار ہونے کی وجہ سے امن و امان اور راحت ختم ہوجاتی ہے، جس طرح آج کل ہم اپنے ممالک میں جمہوریت کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت میں شرعی حکومت اور نظام سے دور رکھنے کے لیے جمہوریت کاپر فریب نعرہ ایک خوبصورت پھندا ہے۔ جس میں جہلاء، نادانوں، کج فہم اور خواہش پرست عوام الناس کی اکثریت کی رائے پر چل کر بد بختی، نحوست، شقاوت اور بد نظمی مول لی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَن فِیْ الأَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ ہُمْ إِلَّا یَخْرُصُونَ﴾(الانعام: 116) ’’ اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں اگر تم اُن کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں اللہ کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور محض اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(خواہ وہ نیک ہو یا فاجر): اس جملہ کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر ہے: ((صَلِّ خَلْفَ کُلِّ بَرٍ وَّ فَاجِرٍ …)) [1] ’’ہر نیک اور بد کے پیچھے نماز پڑھ لو…۔‘‘ اس حدیث سے جو لوگ عام ائمہ مساجد کے لیے استدلال لیتے ہیں کہ جیسا بھی امام ہو اس کے پیچھے نماز پڑھ لینی جائز ہے، یہ محل نظر ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث امام اکبر(حاکم)کے متعلق ہے۔ اگر وہ خود امام ہو، یا کسی کو جمعہ یا جماعت کے لیے امام مقرر کیا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں حرج سے نکلنے کا راستہ ہے۔جب کہ عام امام مسجد کے لیے شرعی شرائط کے پورے ہونے کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ حاکم کے حقوق 32۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والحج و الغزو مع الإمام ماضٍ، وصلاۃ الجمعۃ خلفہم جائزۃ، ویصلی بعدہا ست رکعات، یفصل بین کل رکعتین۔ ہکذا قال الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللّٰه۔ ’’حج اور جہاد امام کے ساتھ جاری ہیں اور نماز جمعہ ان کے پیچھے جائز ہے۔اور اس کے بعد چھ رکعات پڑھی
Flag Counter