Maktaba Wahhabi

241 - 523
فرماتے ہیں: ’’اس شخص کے کافر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جو ضروریات اسلام(دین کے یقینی اور قطعی عقائد واحکام) کامخالف ہو، اگرچہ وہ اہل ِقبلہ میں سے ہو، اور ساری عمر عبادات و طاعات کا پابند رہا ہو، جیساکہ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے ’’ شرح تحریر ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ علامہ انور شاہ صاحب آپ فرماتے ہیں، ’’مختصر یہ ہے کہ شیخ ابو الحسن أشعری اور فقہاء کا یہ قول، ’’ لا نکفر أحداً من أہل القبلۃ‘‘ہم اہل ِ قبلہ میں سے کسی ایک کی تکفیر نہیں کرتے۔‘‘ایک مجمل قول ہے، جو کہ تفصیل کا محتاج ہے۔ بیشک یہ اپنے عموم پر باقی ہے، لیکن أہل ِ قبلہ اور غیر اہل ِ قبلہ کی تعین اور تمیز نہایت اہم تفصیل کو چاہتی ہے کہ اہل قبلہ کون ہے اور کون نہیں ؟(جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے)۔ [1] خلاصہ و حاصل کلام مصنف رحمہ اللہ اس باب میں علمأ امت کی مذکورہ بالا عبارات و تصریحات سے مندرجہ ذیل امور کو ثابت فرمانا چاہتے ہیں، امت مسلمہ کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ ضروریاتِ دین یعنی وہ مجمع علیہ عقائد و احکام جن کا دین رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہونا قطعی اور یقینی ہے ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے اور منکر قطعاً کافر ہے اگرچہ وہ قبلہ سے منحرف نہ بھی ہواور خود کو مسلمان بھی کہتا ہو۔ کفر صریح یعنی کفریہ عقائد و اقوال و اعمال کا ارتکاب قطعاً کفر اور ان کا مرتکب یقیناً کافر ہے، اگرچہ وہ خود کو مسلمان سمجھتا رہے اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ عبادات و احکام شرعیہ کا پابند ہو۔ متکلمین کی اصطلاح میں ’’اہل قبلہ‘‘ سے مراد وہ مؤمن کامل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پورے دین پر ایمان رکھتا ہو۔ کفریہ عقائد و اعمال کا ارتکاب کرنے والے یا ضروریاتِ دین کا انکار کرنے والے انسان کو ’’اہل قبلہ‘‘ میں سے ماننا یا کہنا یا تو نا واقفیت پر مبنی ہے یا فریب اور دھوکہ ہے۔ ’’اہل قبلہ‘‘ کی اصطلاح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی جس روایت سے ماخوذ ہے، اس کا تعلق امیر یا حاکم سے ہے، نہ کہ عام مسلمانوں سے اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امیر یا حاکم جب تک ’’شعائر دین‘‘ کا احترام کرتا رہے، اس کی اطاعت واجب اور اس کے خلاف بغاوت ممنوع ہے، لیکن اگر وہ بھی ’’کفر صریح‘‘ کا ارتکاب کرے تو اسلام سے خارج اور اس کے خلاف بغاوت جائز ہے۔ ’’ لا نکفر أھل القبلۃ‘‘یا ’’اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں‘‘یہ ائمۃ اہل سنت میں سے ہر گز کسی کا قول نہیں بلکہ
Flag Counter