Maktaba Wahhabi

78 - 523
قیاس کی ممانعت اس سے مراد عقیدہ کے امور میں قیاس کی ممانعت ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ 11۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((واعلم-رحمک اللّٰه-: أنہ لیس في السنۃ قیاسٌ، ولا یضرب لہا الأمثال، ولا تتبع فیہا الأہوائ، و[إنما] ہو التصدیق بآثار رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم بلا کیف، و لاشرح، ولا یقال: لما؟ و کیف ؟)) ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ! جان لیجیے کہ سنت میں قیاس نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے ضرب الأمثال بیان کی جاسکتی ہیں اور نہ ہی سنت میں خواہشات کی پیروی کی جائے گی۔ بیشک سنت بغیر کیفیت اور بغیر شرح کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی تصدیق کا نام ہے اور یہ بھی نہیں کہا جائے گا کہ: یہ کیسے ہے ؟ اور کیوں ہے؟‘‘ شرح:…مؤلف رحمہ اللہ کی مراداس قیاس کی ممانعت ہے جس سے سنت کو رد کیا جائے اورجو اعتقادی امور سے متعلق ہو۔ یا جومناہج سنت اور اصول ِ دین سے تعلق رکھتا ہو۔ ان میں قیاس درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ عقائد کے امور توقیفی ہوتے ہیں اور توقیفی امور میں قیاس نہیں کیا جاتاہے،ان پر ایمان رکھنا لازم ہوتا ہے۔ یہاں پر بحث عقائد کے امور میں تھی، اوریہاں پر سنت سے یہی مراد ہے، جیسا کہ سلف صالحین کی عادت تھی۔اس لیے مصنف رحمہ اللہ نے قیاس کی ممانعت کا کہا ہے۔ یعنی جب سنت عقیدہ کے معنی میں ہو تو اس میں کوئی قیاس نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ عقیدہ کی بنیاد قطعی امور پر ہوتی ہے۔ ایسے ہی مناہج دین ان امور کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوں۔بالفاظ دیگر وہ امور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہوں، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان پر عمل رہا ہو، ان میں قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ رہا فقہی مسائل میں قیاس، یعنی کسی چیز کو دوسری چیز پر قیاس کرنا اور ان دونوں کا مرجع ایک ہی دلیل ہو،یا ان کے مابین علت ِ حکم مشترک ہو۔ یا ایسے قاعدہ شرعیہ پر قیاس کرنا جو کہ نصوص صحیحہ سے مستمد ہو، یاکسی نئے پیش آنے والے اجتہادی واقعہ اور مسئلہ کا قرآن و سنت میں موجود مسئلہ پر قیاس کرنا یہ جائزہی نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک اس پر مسلمانوں کا آج تک عمل رہا ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ رہے گا، اس دروازے کا کھلا رہنا اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…نہ ہی اس کے لیے ضرب الامثال بیان کی جاسکتی ہیں): امثال سے مؤلف رحمہ اللہ کی مراد اشباہ و نظائر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے کہا:’’ اے میرے بھتیجے !
Flag Counter