Maktaba Wahhabi

454 - 523
ایک رکن، اورقرآن وحدیث میں وارد ہونے والے لفظ کی تأویل کی، جس کے نتیجہ میں ان کے نصیب میں ہمیشہ گمراہی ہی رہی۔ ان کا گمان یہ ہے کہ نماز کا معنی ہے: ’’ امام سے محبت رکھنا، اور حج سے مراد امام کی زیارت کرنا ہے، اور روزہ سے مراد: امام کے راز افشاں کرنے سے بازرہنا ہے، نہ کہ کھانا کھانے سے رکنا۔ اس کے علاوہ اور اس طرح کی فاسد تأویلات کرتے ہیں۔‘‘ کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسے جھوٹے دعووں کا شکار ہو، بھلے ایسا دعوی کرنے والا ظاہری طورپر کتنا ہی پاکباز و پارسا کیوں نہ ہو، اور لوگوں کووعظ و نصیحت کرنے میں کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو۔ مگر چونکہ یہ انسان بذات خود بدعات کا شکار ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی شکار کرنا چاہتا ہے، لہٰذا جتنا بھی ممکن ہوسکے، اس کے شر سے بچ کر رہنا چاہیے۔ او راس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔اور لوگوں کو بھی اس کے فتنہ سے خبردار کرتے رہنا چاہیے تاکہ کوئی بھولا بھالا یا سادہ مسلمان اس کے داؤ میں نہ آجائے۔ ھبہ کے نکاح کا بیان شریعت اسلامیہ میں کچھ شرطیں ہیں جن کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوسکتا۔ ان میں سے: پہلي شرط: ولی کا ہونا ہے۔جو اس کا نکاح کرے گا۔ ولی قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی ہوسکتا ہے۔ اس کی اجازت و مرضی کے بغیر نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا نکاح إلا بولي و شاھدي عدل))[1] ’’ ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔‘‘ اور نہ ہی عورت کہ اس بات کی اجازت حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کر لے، اگر وہ ایسا کرے گی تو اس کا نکاح فاسد ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیہا فنکاحہا باطل، باطل، باطل))[2] ’’ جو کوئی عورت اپنے والی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔‘‘ یہ جمہور علمائے کرام(شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ)کا مسلک ہے۔ اس لیے کہ عورت کمزور ہوتی ہے، اور بہت جلد دھوکہ کھانے والی ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ایسے انسان سے نکاح کرلے جو اس عورت اور اس کے خاندان کے لیے بہتر نہ ہو۔ ولی عورت کے لیے ایک مضبوط حفاظتی قلعہ ہوتا ہے۔ جو اسے لوگوں کے ہاتھ میں کھیل تماشا بننے سے اور کسی تکلیف کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ اسی لیے شریعت نے مردوں کو خطاب کیا ہے کہ اپنی زیر ولایت خواتین کی شادیاں
Flag Counter