Maktaba Wahhabi

79 - 523
جب میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سناؤں تو اس کے لیے مثالیں مت بیان کرو۔‘‘[1] مصنف کا قول:(یہ بھی نہیں کہا جائے گا کہ: یہ کیسے ہے…): یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے باب اور عقیدہ کے امور میں ہے۔’’بغیر کسی شرح کے ‘‘ کہنے سے مصنف کی مرادایسی شرح ہے جو اس کے صحیح معنی کے خلاف ہو۔ وہ شرح جو سنت کے دلائل کے برعکس ہو۔جیساکہ جہمیہ، قدریہ اور دوسرے ملحد اور زندیق فرقے قرآنی آیات کی من پسند اور جی بہاتی تاویل و تشریح کرتے ہیں۔ جب کہ دین کے باقی ابواب(فقہ عبادات و معاملات) میں شرح، توضیح اور ان آثارکا بیان بہت ضروری بلکہ واجب ہوتا ہے تاکہ لوگ دین کو سمجھ سکیں، یہ کام صرف ان ہی لوگوں کا ہے جو دین کا علم اور اس کی سمجھ کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل کی مناسب شرح کرنے پر دسترس رکھتے ہوں۔ یہاں بھی لغو تاویل اور فاسد شرح کرنے کی اجازت ہر گز نہیں۔ علم کلام کی مذمت 12-:(مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں): ((والکلام و الخصومۃ والجدال والمرائُ محدِثٌ، یقدح الشک في القلب، وإن أصاب صاحبہ الحق والسنۃ۔)) ’’اور(علم) کلام، خصومت، جھگڑا، اور بے جا ضد بازی یہ ساری چیزیں نئی ایجادکردہ(اور بدعت) ہیں۔جو انسان کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں، اگرچہ یہ انسان حق اور سنت کو پاہی لے۔ ‘‘ شرح:…یہ قاعدہ بھی دین کے ان عظیم الشان قواعد میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں برقرار رکھا ہے، اور جس پر سلف ِ صالحین کا اتفاق رہا ہے، کہ دین میں قیل و قال کرنا، اور ناحق جھگڑا کرنا یہ سب حرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہدایت پر آنے کے بعد کبھی کوئی قوم گمراہ نہیں ہوئی، مگر جدال کی وجہ سے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: ﴿مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًا ط بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ﴾ [2] ’’انہوں نے جو مثال بیان کی ہے یہ تو صرف جھگڑنے کے لیے ہے۔ حقیقت میں یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ جس انسان کی خواہشات تعلیمات نبوت کے تابع ہوں، اس کے ہاں کوئی شک و شبہ اور جھگڑا و جدال نہیں پایاجاتا۔ اس لیے کہ وہ مسلمان اور اطاعت گزار ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کو حرز جان سمجھتا ہے، فرمان ربانی ہے: ﴿فَاِمَّا یَاْتِیْنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾(البقرۃ: 38)
Flag Counter