Maktaba Wahhabi

44 - 523
’’ اس لیے کہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔‘‘ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو فتنے اورگروہ بندیاں واقع ہونے کی خبر دی تو انہوں نے پوچھا:اگر میں ان حالات کو پالوں تو آپ مجھے کس چیز کا حکم دیتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أن تلزم جماعۃ المسلمین و إمامہم۔قلت: فإن لم یکن لہم جماعۃ و لا إمام؟ قال: فاعتزل تلک الفرق کلہا، ولو أن تعض بأصل شجرۃ حتی یدرکک الموت))[1] ’’ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کی ہمراہی کو اپنے لیے لازم کرلو۔‘‘میں نے کہا: ’’ اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت یا امام نہ ہو(تو پھر کیا کروں)؟۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ان تمام فرقوں سے بچ کررہو، اگرچہ درخت کی جڑوں کو اپنی داڑھوں سے بھی پکڑو، یہاں تک کہ تمہیں(اسی حالت میں) موت آجائے۔‘‘ جماعت کے بنیادی اصول اس حدیث کی بنیاد پر جماعت کے لیے دو بنیادی اکائیاں ہیں: 1۔ یہ کہ جماعت کا منہج کتاب و سنت پر مبنی ہو نہ کہ لوگوں کی آراء اور قیاسات پر۔ 2۔ یہ کہ اس مسلمان جماعت کا امام ہو، جو ان کی قیادت اور رہنمائی کرے، اور جس کی طرف رجوع کیا جاتا ہو۔ اس لیے کہ جماعت کا اکٹھا ہونا امام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اگر مسلمانوں کے لیے امام(اکبر یعنی حاکم)نہ ہو تو پھر ان تمام فرقوں سے دور رہو(بھلے وہ اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہوں، اور انہوں نے اپنی اپنی جماعتیں بناکر ان کے امراء بھی مقرر کررکھے ہوں، اس صورت میں یہ تمام لوگ فرقے کہلائیں گے، ان پر جماعت کا اطلاق نہیں ہوسکتا، اور ان سے علیحدہ ہونے والے کے لیے کوئی وعید نہیں ہے، بلکہ ازروئے حدیث ان سے علیحدہ ہونا واجب ہو جاتا ہے-دراوی جی عفی اللہ عنہ-) تفرقہ بازی کی مذمت مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(جوکوئی جماعت سے بے رغبتی کرے اور اس سے جدا ہو…): اللہ تعالیٰ نے جہاں ہمیں حق بات پر قائم رہتے ہوئے جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کا حکم دیا ہے، وہیں پر تفرقہ بازی سے منع کیا ہے، اور اس کی قباحت بیان کی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو اس تفرقہ بازی کی وجہ سے لوگوں کا کام تمام کردیا گیا ہوتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter