Maktaba Wahhabi

255 - 523
دیدار ِ الٰہی کی روایت مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وقول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم،((رأیت ربي في أحسن صورۃ))[1] وأشباہ ہذہ الأحادیث، فعلیک بالتسلیم و التصدیق، والتفویض والرضائ، لا تفسِر شیئاً [من ہذہ] بہواک، فإن الإیمان بہذا واجب، فمن فسر شیئاً من ہذا بہواہ، أو ردَّہ، فہو جہمي۔)) ’’اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، ’’ میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا۔‘‘اور ان کی مشابہ احادیث، توآپ پر واجب ہے کہ اس کے سامنے سر تسلیم کرتے ہوئے اس کی تصدیق کریں، اوراس کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں، اور اس پر راضی ہو جائیں۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی کوئی تفسیر اپنی خواہش کے مطابق نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ اس پر ایمان رکھنا واجب ہوجاتا ہے۔ جس نے ان میں سے کسی چیز کی اپنی خواہش کے مطابق تفسیر کی، یا اس کو رد کیا، وہ جہمی ہے۔‘‘ شرح، … اس بارے میں اختلاف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کا دیدار آنکھوں سے تھا یا قلبی مشاہدہ تھا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ﴿وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی﴾(النجم، 13) ’’ اور انہوں نے اس کو ایک اور بار بھی دیکھا ہے۔‘‘ … اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رأیت ربي عزو جل))[2] ’’میں نے اپنے رب عزو جل کا دیدار کیا۔‘‘ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی دوسری روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں نے اپنے رب تعالیٰ کو دیکھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے پوچھا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ملاء اعلی کس چیز میں جھگڑ رہے تھے ؟میں نے کہا:’’ یا رب ! کفارات کے بارے میں جھگڑ رہے تھے، پیدل چل کر باجماعت نماز کے لیے جانا، اور نا پسندیدگی میں بھی اچھی طرح وضو کرنا، اور ایک نمازکے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا،جو ان کی حفاظت کرے گا وہ خیر پر زندہ رہے گا، اور خیر پر ہی اس کی موت آئے گی۔اوروہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہوگا جیسے وہ اپنی ماں سے ولادت کے دن(گناہوں سے پاک) تھا۔‘‘ [3]
Flag Counter