Maktaba Wahhabi

516 - 523
’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘کی وجہ سے ان کا نام رافضہ پڑ گیا۔[1] امام رازی کہتے ہیں: ’’ بیشک ان کا نام رافضہ اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ زید بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا،تو ان کے لشکر نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر طعن کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اس حرکت سے منع کیا، انہوں نے حضرت زید کا ساتھ چھوڑ دیا، آپ کے ساتھ دو سو سوار باقی رہ گئے۔ تو زید بن علی نے ان سے کیا: ’’ رفضتمونی۔‘‘ ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘توکہنے لگے:’’ہاں۔‘‘ تو ان کا یہی نام پڑگیا۔-یعنی رافضی-[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اسلام میں سب سے پہلے رافضہ کالفظ اس وقت معروف ہوا جب دوسری صدی ہجری کے شروع میں زید بن علی نے خروج کیا۔ تو آپ سے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ نے ان دونوں حضرات سے محبت و عقیدت کا اظہار کیا، تو لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، یہیں سے ان کا نام رافضہ پڑگیا۔‘‘[3] اور فرماتے ہیں: ’’ زید کے خروج کے زمانہ میں شیعہ رافضہ اور زیدیہ میں تقسیم ہوگئے، اس لیے کہ جب آپ سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ان کے لیے رحم کی دعا کی۔ تو لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے، آپ نے فرمایا: ’’ رفضتمونی۔‘‘ ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ان کے حضرت زید بن علی کا ساتھ چھوڑ دینے کی وجہ سے ان کا نام رافضی پڑگیا۔اور جن لوگوں نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا انہیں زیدیہ کہا جانے لگا۔‘‘[4] مشہور شیعہ عالم نباطی کی کتاب ’’الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم ‘‘ میں ہے: ’’ بیشک ابو بصیر نے صادق علیہ السلام[5] سے کہا:’’ لوگ ہمیں رافضہ کا نام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ! لوگ تمہیں یہ نام نہیں دیتے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ نام رکھا ہے۔ بیشک بنی اسرائیل کے ستر بہترین انسان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی پر ایمان لائے، تو ان کا نام رافضہ رکھا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی، یہ نام تورات میں ان کے لیے لکھ دے، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ذخیرہ کر رکھا
Flag Counter