Maktaba Wahhabi

504 - 523
لوگ علم میں ان سے بڑھ کر ہیں، اورجو ان سے کم ہیں، ہمارے آج کے دن تک یہی بات کہتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان مخلوق سے بڑا اور بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ [مناظرہ و جدال سے منع کرتے ہوئے ] فرماتے ہیں: ﴿ مَا یُجَادِلُ فِیْ آیَاتِ اللّٰہِ إِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِیْ الْبِلَادِ﴾(الغافر: 4) ’’ نہیں جھگڑتے اللہ کی آیتوں میں مگروہی لوگ جنہوں نے کفر کیا، پس ان کا شہروں میں پھرنا آپ کو دھوکہ نہ دے۔‘‘ اور ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے-قرآن کی آیت کے بارہ میں۔ پوچھا، کہنے لگا:’’ما الناشطات نشطاً۔‘‘’’ بند توڑ کر پھیلادینے والی کیا ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:’’ اگر تم سر منڈے ہوتے تو میں تمہاری گردن ماردیتا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((المؤمن لا یماري، ولا أشفع للمماري یوم القیامۃ، فدعوا المراء لقلۃ خیرہ))[1] ’’مؤمن جھگڑا نہیں کرتا، اور نہ ہی میں روز ِ محشر جھگڑا کرنے والوں کی شفاعت کروں گا، بس جھگڑا کرنا اس وجہ سے چھوڑ دو کہ اس میں خیر بہت ہی کم ہے ‘‘[2] شرح: … مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مناظرہ کرنے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے…): اس سے مراد وہ مناظرہ ہے جس سے مقصود لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرنا ہو۔ او رہرایک اپنی رائے یا سوچ و فکر کی تائید میں دلائل پیش کرتا ہو۔ ان میں سے کوئی ایک بھی حق تک پہنچنے کا خواہش مند نہیں ہوتا، بلکہ ان کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ کیسے وہ اپنے حریف پر غالب آجائے۔ ایسا مناظرہ کرنا انتہائی مذموم اور نا پسندیدہ ہے۔کیونکہ یہ مناظرہ اللہ کی رضا کے لیے اور حق کی تلاش میں نہیں بلکہ اپنے آپ کو اونچا کرنے کے لیے ہے۔ ہاں اگر مناظرہ سے مقصود حق کی تلاش ہو، تو پھر اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، بلکہ ایسا کرنا مطلوب شریعت ہے۔ یہ ہمیشہ سے اہل حق یعنی اہل سنت و الجماعت کا منہج اور طریقہ کار رہا ہے کہ بلاوجہ مناظرہ بازی نہیں کیا کرتے تھے، سوائے اہم ترین ضرورت کے۔ اہل حق و اہل باطل میں
Flag Counter