Maktaba Wahhabi

247 - 523
کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہو، یا اسماء و صفات سے یا افعال سے، ان میں سے جو چیز بھی نص سے ثابت ہوجائے، تو اس کے لیے بذیل امور ضروری ہیں، أ، یہ کہ منصوص صفت وہ حق اور سچائی ہے جس کو تسلیم کرنا مسلمان پر واجب ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور ان تمام امور کو اللہ عزو جل کے لیے ان کی حقیقت میں ایسے ہی ثابت مانا جائے گا جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شانِ جلال کے لائق ہے۔ ب، (آیات و احادیث میں وارد)ان اخبار کی تصدیق کرنا اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ غیبی خبریں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہم تک صاف واضح عربی زبان میں پہنچی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہم سے خطاب کیا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ ہم سے ایسے مخاطب ہوں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہ آئے۔بلکہ خطاب الٰہی کے معانی اورحقائق مدارک بشریت کے تحت ہوتے ہیں۔ ج، ہم لوگ اس بارے میں اور اس کے علاوہ دیگر امورکے بارے میں جو کہ احادیث ِ صحیحہ سے ثابت ہیں، یقینی طور پر اور دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں اور پکا ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مماثلت اور مشابہت سے بالکل بری ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْء ٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ﴾(الشوریٰ،11) ’’ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھتا سنتا ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہ ان امور کی حقیقت اور معانی تو معلوم ہیں، مگر کیفیت نامعلوم ہے۔لہٰذا اس کے معانی کو بدلا بھی نہیں جاسکتا، اور نہ ہی ان میں تحریف یا تعطیل ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات اور اسماء کمال کے اعلی مراتب پر ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مانند کوئی چیزنہیں ہوسکتی، اس سے مماثلت کی نفی ہوگئی۔اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی تشبیہ یا مشابہت بیان کی جاسکتی ہے۔اس سے جو کچھ انسانی ذہن ودل میں تصوراور وہم، اس باب میں وارد ہواہے، اس کی بھی نفی ہو گئی۔ د، ان مذکورہ امور کے بارے میں اور ان کے علاوہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے متعلق نصوص میں ثابت ہو، اس کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ، بیشک اللہ تعالیٰ نے ہم سے ان الفاظ میں خطاب کیا ہے تاکہ ہم اس کی حقیقت کو اس طرح جان سکیں جیسے اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔اور ان امور کی کیفیت نہیں بیان کی جاسکتی، نہ ہی ان کے لیے کو ئی مثال دی جاسکتی ہے، اور نہ ہی تشبیہ دی جاسکتی ہے، اور نہ ہی ان معانی کا انکار کرنا جائز ہے اور نہ ہی اصلی معنی میں تاویل کرنا جائز ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اپنے متعلق فرمایا ہے وہ اپنی اصلی حقیقت پر ہے۔ اور نہ ہی یہ کہنا جائز ہے کہ ٹھیک ہے احادیث اور نصوص میں تو یہ ثابت شدہ امور ہیں، مثلًا، اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھوں کاہونا، اور پاؤں کا ہونا، اورچہرہ کا ہونا، اللہ تعالیٰ کا آسمانی دنیا پر نزول فرمانا، مگر ہم اس کے معانی کو نہیں سمجھ سکتے،
Flag Counter