Maktaba Wahhabi

237 - 523
’’علامہ نوح آفندی کی تحقیق یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے جو اہل قبلہ کی تکفیر کی ممانعت منقول ہے، اس سے مراد وہی ہے جو ’’فقہ اکبر‘‘ میں مذکور ہے کہ گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کی جائے جو اہل سنت و الجماعت کامذہب ہے، اچھی طرح سمجھ لو۔‘‘ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ، ’’ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ممانعت تکفیر اہل قبلہ کا مسئلہ سب نے صرف ’’منتقیٰ‘‘ کے حوالہ سے ہی نقل کیا ہے، جیسا کہ ’’شرح مقاصد‘‘ میں تصریح کی ہے اور محقق ابن امیر حاج نے ’’شرح تحریر ‘‘ میں ’’منتقیٰ‘‘کی عبارت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ان الفاظ میں نقل کی ہے، ((ولا نکفر أھل القبلۃ بذنب۔)) [1] ’’اور ہم تو کسی گناہ کی وجہ سے اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔‘‘ دیکھئے! اس عبارت میں ’’بذنب‘‘ کی قید موجود ہے، درحقیقت امام ابوحنیفہؒ کا یہ قول(جیسا کہ علامہ نوح آفندی کی تحقیق ہے) صرف ’’معتزلہ‘‘ اور ’’خوارج‘‘کی تردید کے لیے ہے،(کہ خوارج تو گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے مسلمان کو کافر کہتے ہیں اور معتزلہ ایمان سے خارج اور مخلد فی النار کہتے ہیں لیکن ہم اہل سنت والجماعت نہ اس کو کافر کہتے ہیں نہ خارج از اسلام اور مخلد فی النار بلکہ اس کو مسلمان اور لائق مغفرت مانتے ہیں) اس لیے کہ جملہ کا انداز بتلا رہا ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ ان لوگوں پر تعریض کررہے ہیں جو ایک مؤمن مسلمان کو بغیر کسی کفریہ قول یا فعل کے سرزد ہوئے محض کسی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کافر اور خارج از اسلام قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن کلماتِ کفر کہنے پر بھی اگر کسی کو کافر نہ کہا جائے گا تو پھر ان کلمات کو ’’کلماتِ کفر‘‘ نہ کہنا چاہیے، اور یہ محض فریب اور مغالطہ ہے۔ یہی بات حضرت شاہ جی سے پہلے شیخ الاسلام حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ’’کتاب الایمان‘‘ میں مندرجہ ذیل تصریح کے ساتھ موجود ہے، آپ فرماتے ہیں، ((ونحن إذا قلنا أھل السنۃ متفقون علی أنہ لا یکفر بذنب فإنما نرید بہ المعاصی کالزنا)) [2] ’’ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ گناہ کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر نہ کہا جائے تو اس گناہ سے ہماری مراد زنا و شراب خوری وغیرہ معاصی ہوتے ہیں۔‘‘ علامہ قونوی نے ’’شرح عقیدہ طحاویہ ص، 246 میں پوری طرح اس کی وضاحت کی ہے۔
Flag Counter