Maktaba Wahhabi

210 - 523
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((دعانا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فبایعناہ، فکان فیما أخذ علینا أن با یعنا علی السمع و الطاعۃ في منشطنا و مکرہنا، وعسرنا و یسرنا، وأثرۃ علینا، وأن لا ننازع الأمر أہلہ، قال، ’’إلا إن تروا کفراً بواحاً عندکم من اللّٰه فیہ برہان))[1] ’’ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا، پس ہم نے آپ کی بیعت کی۔ پس جو عہد آپ نے ہم سے لیا تھا، کہ ہم نے آپ کی بیعت کی بات کے سننے اور ماننے پر اپنی رضامندی اورناپسندیدگی پر، اور اپنی تنگی اور آسانی پر، اوریہ کہ ہم اسے اپنے نفس(کی خواہشات) پر ترجیح دیں گے اور یہ کہ ہم حکمرانوں سے ان کی حکومت کے بارے میں نہ لڑیں۔ سوائے اس کے کہ ان میں ایسا کھلا ہوا کفر دیکھیں جس کے بارے میں ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل ہو۔‘‘ حکمرانوں، علماء اور اپنے سے اوپر کے طبقہ کی بات ماننے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔اس لیے کہ معصیت کے کام میں کوئی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اطاعت صرف معروف(بھلائی کے کاموں میں) ہوگی۔جیساکہ حدیث شریف میں آتا ہے، ((أنہ لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق))[2] ’’ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوگی۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا طاعۃ في معصیۃ اللّٰه عزوجل، إنما الطاعۃ في المعروف))[3] ’’ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہوگی، بیشک اطاعت بھلائی کے امورمیں ہے۔‘‘ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((السمع و الطاعۃ علی المرء المسلم فیما أحب و کرہ، مالم یُؤمر بمعصیۃ، فإذا أمر بمعصیۃ فلا سمع و لا طاعۃ))[4] ’’مسلمان انسان پر اس کی پسند اور نا پسند میں بات سننا اور اطاعت کرنا فرض ہے جب تک کہ اسے گناہ کے کام کا حکم نہ دیا جائے۔ جب اسے-اللہ تعالیٰ-کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو اس وقت نہ ہی بات سنی جائے
Flag Counter