Maktaba Wahhabi

184 - 523
زیادہ حق دار جناب حضرت ِ علی رضی اللہ عنہ ہی تھے۔رافضیوں کا دعوی اور مذہب باطل ہونے پر سنت میں بھی کافی دلائل موجود ہیں کہ امامت کبھی اولاد ِ حسین رضی اللہ عنہ سے باہر نہیں جائے گی۔حضرت جابر بن سمرہ [ رحمہ اللہ ]فرماتے ہیں: ’’میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ((إن ہذا الأمر لا ینقضي حتی یمضي فیہم اثنا عشر خلیفۃ، قال: ثم تکلم بکلام خفي عليَّ، قال: فقلت لأبي: ما قال ؟ قال: کلہم من قریش)) [1] ’’یہ خلافت تمام نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمانوں میں بارہ خلیفہ نہ ہولیں۔ پھر آپ نے آہستہ سے کچھ فرمایا۔ میں نے اپنے باپ سے پوچھا: آنحضرت کیا فرمایا؟-کہا-فرمایا: یہ سب قریش میں ہوں گے۔‘‘ اس حدیث سے کچھ ایسا اشکال ہوسکتا ہے کہ بارہ خلفاء سے مراد بارہ امام ہوں گے۔ حالانکہ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ میرے بعد خلافت تیس سال تک ہوگی۔‘‘ان تیس سالوں میں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت پانچ خلیفہ گزرے ہیں۔ تو اس کل جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں خلافت سے مراد خلافت ِ نبوت ہے اور بارہ خلفا سے مراد عام خلافت ہے۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ: خلفاء تو بارہ سے زیادہ گزرے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: بارہ کا عدد حصر کے لیے نہیں، بلکہ بارہ خلیفہ تو ہوں گے، اور اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں اور اس سے زیادہ کا ہونا اس حدیث کے کچھ بھی خلاف نہ ہوگا۔ تیسرا یہ کہ ان بارہ خلفاء کے دور میں بدعات اور شرکیات کی تائید نہ ہو، اور فرقوں کی تائید حکومتی سطح پر نہ ہو، اور کام منہج نبوت کے مطابق چلتا رہے۔ پھر اس کے بعد ایسے خلفاء آئیں جو بدعات اور شرکیات میں مبتلا بھی ہوں، اوران کی تائید پوری قوت کے ساتھ کریں، جیساکہ بنو عباس کے وسطی دور میں ہوا۔ چوتھا جواب: اس سے مراد یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان مختلف بارہ حکومتوں میں بٹ جائیں، اور ہر حکومت کا سربراہ قریشی ہوگا۔ جیسے صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث میں ہے: ’’یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو، یا تم پر بارہ خلیفہ ہوں، اور وہ سب قریشی ہوں گے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے سنا کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کسری کے سفید محل کو فتح کرے گی۔‘‘[2] یہی امت کے گروہ بھی اس سے مراد ہوسکتے ہیں۔ اس حدیث کا رافضہ اقرار بھی کرتے ہیں اور اسے اپنی کتابوں میں روایت بھی کرتے ہیں۔ [3]
Flag Counter