’’قیامت والے دن کسی بندے کے قدم نہیں ہٹیں گے(یعنی بارگاہ الٰہی سے جانے کی اجازت نہیں ہوگی) یہاں تک کہ اس سے(پانچ چیزوں کی بابت) نہ پوچھ لیا جائے، اس کی عمر کے متعلق کہ اس نے اسے کن کاموں میں ختم کیا؟ اس کے علم کے متعلق کہ اسے اس نے کن چیزوں میں استعمال کیا؟ اس کے مال کے بارے میں اس نے اسے کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کن چیزوں میں اسے کمزور کیا اور کھپایا۔‘‘
شیخ الخولی شخصی ملکیت کے بارے میں شخصی اسباب ومحرکات کے عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وہ مثبت خصوصیات والا ایک ایسا نفسیاتی قانون ہے جس کے سبب آدمی پورے طور پر ملک کی آبادکاری میں اپنی محنت صرف کرتا ہے۔ ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اپنے عمل کے ماحصل پر قبضہ کی خواہش بھی ہے، اور اس قبضہ کا اثبات ایک واجبی قبولیت ہے تاکہ وہ قانون اپنا اثر دکھا سکے جو اللہ تعالیٰ نے اس سے چاہا ہے۔‘‘[1]
لیکن اسلام نے کسب معاش اور جمع مال کچھ متعین شرعی اصول وضوابط کے تحت اور تدریجی مراتب کے حدود میں جائز قراردیا ہے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’کسب معاش کے مختلف مراتب ہیں، لہٰذا اتنی مقدار میں حصول رزق جس سے آدمی اپنے آپ کو توانا رکھ سکے، ہر شخص پر فرض عین ہے، کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتا، اور جس کام سے فرائض تک رسائی حاصل ہوسکے وہ بھی فرض ہے، اگر کوئی اس سے زیادہ نہ کمائے تو اس کے لیے گنجائش ہے۔ اس
|