لہٰذا اسلام میں شخصی آزادی کچھ ایسے ضوابط اور پابندیوں کے ساتھ محدود ہے جو اسے اس بنیادی مقصد سے جوڑ دیتے ہیں جس کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی ہے، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی بندگی اور قانون سازی افراد کی حریت سلب کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ’’بشریت کو ہلاکت کے پھسلاؤ اور گمراہی کے گڑھوں میں گرنے سے بچا لے، جس میں عرصۂ دراز سے بھٹک رہے تھے اور اپنے تجربات میں لڑکھڑا رہے تھے، اور انہیں یہ تجربے نسلوں کی بربادی کی طرف دھکیل رہے تھے۔[1]
اس قانون سازی کا ایک فا ئدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے سماجی حقوق اور ان کے مطالبات کی نگہداشت کسی شخص کے حق اور اس کی آزادی سے متصادم ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نہایت بلیغ تصویر پیش کرتے ہوئے کہا ہے:
((مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَی حُدُودِ اللّٰہِ وَالْوَاقِعِ فِیہَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَہَمُوا عَلَی سَفِینَۃٍ فَأَصَابَ بَعْضُہُمْ أَعْلَاہَا وَبَعْضُہُمْ أَسْفَلَہَا فَکَانَ الَّذِینَ فِی أَسْفَلِہَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَائِ مَرُّوا عَلَی مَنْ فَوْقَہُمْ فَقَالُوا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِی نَصِیبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ یَتْرُکُوہُمْ وَمَا أَرَادُوا ہَلَکُوا جَمِیعًا وَإِنْ أَخَذُوا عَلَی أَیْدِیہِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِیعًا۔))[2]
’’اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود کو قائم کرنے والا ہے اور اس کی جوان حدوں میں مبتلا ہونے والا ہے ان لوگوں کی طرح(جو ایک کشتی پر سوار ہوئے) انہوں نے کشتی کے(اوپر اور نیچے والے حصوں کے لیے) قرعہ اندازی کی، پس ان میں سے بعض اس کی بالائی منزل پر اور بعض نچلی منزل پر بیٹھ گئے، نچلی منزل والوں کو جب پانی کی طلب ہوتی تو وہ اوپر آتے اور بالا نشینوں پر سے گزرتے
|