’’اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو.... وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا تا کہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔‘‘
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس طرح واضح فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ’’یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے‘‘ اور چند خطوط اس کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا کہ’’یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ اس کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔‘‘[1]
سیّدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک سیدھا راستہ ہے، اور اس کے دونوں جانب دو فصیل قائم ہیں جن میں کچھ کھلے ہوئے دروازے ہیں، دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں، راستہ کے دروازے پر ایک شخص پکار کر کہہ رہا ہے: لوگو! پورے راستہ پر چلو لیکن ٹیڑھے ترچھے نہ ہوجانا، اور ایک دوسرا پکارنے والا راستے کے اوپر سے پکار رہا ہے، جب کوئی آدمی ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے: اے بھلے انسان! اسے مت کھول، اگر تو اسے کھول دے گا تو اس میں داخل ہوجائے گا، سنو! وہ سیدھا راستہ اسلام ہے، دونوں فصیلیں اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، کھلے ہوئے دروازے اللہ کی ممنوعات ہیں، راستہ کے سرے پر بیٹھ کر پکارنے والا قرآن ہے، اوپر سے آواز لگانے والا ہر مسلمان کے اندر موجود اللہ کی جانب سے وعظ ونصیحت کرنے والا فرشتہ ہے، یا وعظ و نصیحت کا داعیہ ہے۔‘‘[2]
|