وقانون کے مبادی اس کے وہ بنیادی قواعد ہیں جن پر اس کی اساس و قیام ہے اور اس سے وہ نکل نہیں سکتا۔‘‘[1]
تربیت کے جدید مقالات ومطالعے میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان میں بیشتر’’مبادی‘‘ تعین اور واضح تعریف سے خالی ہیں۔ چنانچہ آپ کو کچھ ایسی کتابیں یا بحوث ومقالات ملیں گے جن کے عنوان میں ہی لفظ’’مبادیٔ تربیۃ فی کذاأ والکذاء‘‘ یعنی فلاں نوح کے تربیت کے مبادیٔ کا استعمال ہوا ہوگا۔ لیکن جب آپ اس کتاب یا مقالہ کا بغور جائزہ لیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ مؤلف نے اس میں تربیت کے کچھ ایسے مفہوم یہ سمجھ کر داخل کر دیے ہیں کہ یہی مبادی ہیں، لیکن وہ اس تربیتی اصطلاح کے مقصد کی وضاحت سے قاصر ہیں۔
شیخ عبدالرحمن نحلاوی نے اس اصطلاح کی تعریف یا اس کا تعارف اس طرح کرایا ہے:
’’لفظ’’مبدأ‘‘ ایسی جامع فکر کو شامل ہے جس سے فروعی افکار صادر ہوتے ہیں۔ یا جس کی روشنی میں فزکس، کیمیا، تربیت یا اجتماعی تعلقات کے عمل منظم کیے جاتے ہیں، اکثر مبادیٔ کی مصرح طریقے سے آمد آمد ہوتی ہے، یا مقالات و قصص یا قوانین یا علوم طبیعیہ کے مرتب مجموعے اسے شامل ہوتے ہیں، لیکن اسلامی تربیت کے مبادیٔ قرآن وحدیث میں تلاش کرنے والے کو ملتے رہتے ہیں۔‘‘[2]
شیخ نحلاوی رحمہ اللہ دوسرے مقام پر اسلامی تربیت کے مبادیٔ کی تعریف یوں کرتے ہیں :
’’وہ تربیت کے ایے عمومی اور وسیع قواعد و قوانین ہیں جو قرآن وحدیث سے اقتباس کیے گئے ہوں۔‘‘[3]
|