۱۔ دو نشانوں کے درمیان دوڑنا
۲۔ گھوڑے کو سدھانا
۳۔ بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا
۴۔ تیراکی سیکھنا۔‘‘
اس حدیث میں چند مباح وسائل تفریح کا تذکرہ ہے، لہٰذا آدمی کا اپنی بیوی اور اہل خانہ سے ہنسی مذاق کرنا، انہیں مانوس کرنا، ان کے ساتھ کھیل کود کرنا بھی لہو ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
’’حبشی اپنے نیزوں کے کرتب دکھا رہے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چھپا لیا اور میں ان کے کرتب دیکھتی رہی یہاں تک کہ میں نے خود ہی واپسی کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک کھیل کود کی دلدادہ نو عمر لڑکی کتنی دیر تک اسے دیکھ سکتی ہے۔‘‘[1]
خلدون الاحدب نے اس واقعہ پر یہ تعلیق لگائی ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل نفس انسانی کی حقیقت کا ادراک اور فطری آواز پر لبیک کہنا ہے، کیونکہ دلوں کو ان کا راحت کا حق دینے اور نفس کو مباح قسم کے لہو ولعب سے بہلانے سے آدمی کو اپنی قدرت و صلاحیت اور اپنے اوقات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کا موقع ملتا ہے۔[2]
مباح لہو ولعب یہ بھی ہے کہ آدمی شرعی حدود وضوابط میں رہ کر اپنے احباب، رفقاء اور ہم جلیسوں سے ہنسی مذاق کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ تو ہم لوگوں سے ہنسی مذاق، دل لگی، خوش طبعی کرتے رہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|