یہ ہمارے رہبر اعظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو عبدااللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ قرآن کریم کی کچھ آیات تلاوت کریں، عبداللہ مسعود کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے کچھ قرآن سناؤ؟ میں نے کہا: کیا میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں جب کہ قرآن شریف آپ پر نازل ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ دوسرے سے ہی اسے سنوں۔‘‘[1]
ایک طالب علم کو دوران تعلیم درس اور محاضرہ کے مختلف مراحل آتے رہتے ہیں جن کے دوران صرف سننے اور خاموش رہنے کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے یہاں ہم تعلیم وتربیت اور توجیہ وارشاد کے ذمہ داروں کی نگاہ اس جانب مبذول کرانا پسند کریں گے کہ طلبہ اور نوجوانوں میں علم و معرفت کے حصول اور زیادتی ایمان میں ملکۂ سماع یا قوت سامعہ کی اہمیت و تاثیر کے سبب اس کا استعلال کیا جانا چاہیے۔
محاضرات وندوات اور سیمینار کی مجالس کو ذاتی تربیت کے استحکام بخشنے والے امور میں سے بنانے کے لیے ہر شخص کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ انہیں ان کے اصلی مقامات مثلاً جامعات، ادبی مجالسی اور مساجد میں منعقد ہونے کا پتہ کرے، اور پہلے ہی ان فکری ملاقات میں شرکت کرنے والوں کے بار ے میں جان کاری حاصل کرنے کی کوشش کرے، کم از کم اس سیمینار یا مجلس کے بارے میں پہلے مختصر سی معلومات حاصل کرلے تا کہ ناگہانی ایسا نہ ہو کہ اس کا وقت لچر اور بے ہودہ افکارو نظریات سننے میں ضائع ہوجائے۔
مسموعات کے عصری اور موجودہ مصادر میں جن کا ذاتی تربیت میں نمایاں کردر ہے ’’اسلامی کیسٹ‘‘ (اسلامک اسٹڈیز، اور موبائل کے اسلامی ڈاؤن لوڈز) کے نام سے معروف ہیں، انہیں حاصل کرنا اور جمع کرنا بھی آسان ہے اور ان سے صبح وشام، سفر حضر میں اور گھر اور
|