پڑھنے والا جو بھی قدم اٹھاتا ہے تو اس کے بعد کا ہر قدم رہنمائی کا زینہ بن جاتا ہے۔جو وضاحت رائے اور وقت حکم میں اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی عقلی پختگی عجیب وغریب شکل میں نمو پاتی ہے تا کہ اس کے بعد وہ ہر قسم کے گمراہ کن اثرات اور اندرونی وبیرونی یو رش کے لیے سچی اور حساس کسوٹی بن جائے۔‘‘[1]
گھر میں کچھ مفید کتابیں جمع کر کے رکھنا بھی اہم اور ضروری ہے تا کہ بوقت ضرورت ان کا مطالعہ کیا جاسکے، ان کے ذریعہ خالی اوقات کو پر کیا جائے اور نفس کو اس کا عادی بنایا جاسکے۔
ایک علم و ادیب کی اس بات پر سرزنش کی گئی کہ وہ اپنے گھر اور اپنی کتابوں میں کھوئے رہتے ہیں، لوگوں کے ساتھ مجلسوں اور محفلوں میں شریک نہیں ہوا کرتے، تو انہوں نے جواباً اپنی کتابوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا:
لنا جلساء مانمل حدیثھم
ألباء مأمونون غیباو مشھدا
یقیدوننا من رأیھم علم من مضی
وعقلا وتأدیبا ورأیا مسددا
بلا مؤنۃ تخشی ولا سوء عشرۃ
ولا تتقی منھم لسانا ولا یدا
فان قلت ھم موتی فلست بکاذب
وان قلت أحیاء فلست مفندا
یفکر قلبی دائما فی حدیثھم
کان فؤادی ضافہ سم أسودا[2]
|