’’پڑھائی معرفت کی کنجی، دار آخرت کی سعادت تک پہنچنے کا راستہ، انسانی عقول سے اتصال اور ان کے افکار کی معرفت کا وسیلہ ہے۔ وہ راستہ کے پہلو بہ پہلو ہمارے اوقات فراغ کے اندر لطف اندوزی کا ذریعہ ہے۔‘‘[1]
اس امت کے قدیم علماء اور ادباء کو پڑھائی اور مطالعہ سے گہرا شغف تھا، انہیں کتابوں اور ان کے جمع کرنے کا بڑا شوق تھا، اور اس سلسلے میں ان کے بہت سے اقوال منقول ہیں۔ ان میں سے بعض افراد کا قول یہ ہے :
’’کتاب سے زیادہ کوئی بھی چیز نفس میں زیادہ اثر کرنے والی، سینہ کو زیادہ کھولنے والی، زیادہ عزت وآبرو عطا کرنے والی، دل کو زیادہ ہوشیار بنانے والی، زبان کو زیادہ کشادہ کرنے والی، دلوں کو زیادہ مضبوط بنانے والی، زیادہ اتفاق اور کم اختلاف پیدا کرنے والی، زیادہ بلیغ اشارہ کرنے والی اور مراد کو زیادہ بیان کرنے والی نہیں ہے۔ جس کا فائدہ بہت ہے اور اس میں محنت و مشقت کم ہے، اس سے دھوکہ کرنے والا ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے، اس کا انجام لائق عبرت ہو جاتا ہے، وہ ایسا گفتگو کرنے والا ہے جس سے اکتایا نہیں جا سکتا۔ اور ایسا ساتھی ہے جو بے وفائی نہیں کرتا، اور ایسا ہم نشین ہے جو غصہ نہیں ہوتا، وہ سابقہ عقلوں کا گنجینہ، بیش قیمت حکمتوں کا خزینہ اور گزشتہ امتوں کا ترجمان ہے۔ حافظہ جسے بھول چکا ہو کتاب اسے زندگی عطا کرتی ہے، زمانہ پیچھے چھوڑ چکا ہو اس کی تجدید کرتی ہے اور غباوت نے جس پر پردہ ڈال رکھا ہے اسے ظاہر کردیتی ہے۔ اور جب کوئی قابل اعتماد قطع تعلق کرلیتا ہے تو اس کو جوڑتی ہے، اور جب بادشاہ خیانت کرنے لگتے ہیں تو خود برقراررہتی ہے۔‘‘[2]
|