ذرائع آمدنی کی کمی یا انسانی قدرت وطاقت اور صلاحیت کے ضیاع اور مسلم قوموں اور حکومتوں کے بجٹ میں لاچاری کی حد تک خسارے کی رپورٹیں اور خبریں پڑھ کر یا سن کر تعجب نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس مسئلہ کی سنگینی کی وضاحت کے لیے اتنا ہی اشارہ کافی ہے، جو دوسری فصل میں ہم نے بیان کردیا ہے کہ قیامت کے روز ہر شخص سے کچھ سوالات ہوں گے، جن میں سے یہ سوال بھی ہے کہ آدمی نے اپنی عمر کو کہاں صرف کیا، اپنی جوانی کو کہاں لگایا، اور یہ ان مادی یا صحی یا اجتماعی نقصانات کے علاوہ ہے جو اس ضیاع وقت کی بدولت دنیا میں آدمی اور سماج کو پہنچتے ہیں۔
اتنی سی وضاحت سے وقت کے ضیاع کا نقصان سامنے آ جاتا ہے لیکن کسی شے کو اس کی ضد سے دیکھا جائے تو اس کی حقیقت مزید نکھر جاتی ہے، اس لیے اس پہلو پر بھی نگاہ ڈالتے چلیں۔ جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کہ جب وقت کے ضیاع میں خطرناک حد تک خسارہ ہے تو اس کے برعکس وقت کی قدر کرتے ہوئے اس کو صحیح مصرف میں استعمال کرنے کے زبردست فوائد بھی ہیں، جو شخص اپنے نفس کی تربیت کا خواہاں ہے وہ اس اسلوب کو حریصانہ انداز میں اپنائے اور اپنے تمام اوقات کو مشغول رکھے، کبھی بھی خالی نہ رہے کیونکہ اصولی بات یہ ہے کہ تم جب نفس کو اطاعت میں مشغول رکھو گے تو وہ تمہیں معصیت میں پھنسا دے گا۔
خالی اوقات جنہیں پر کرنا چاہیے ان کی مختلف صورتیں ہیں :
۱۔ فراغ عقلي: اس سے مراد یہ ہے کہ ذہن ان آراء ومعتقدات اور افکار سلیمہ سے خالی ہو جو انسانی زندگی کا لازمہ ہیں۔
۲۔ فراغ قلبي: اس کا مطلب یہ ہے کہ دل ان ایمانیات سے خالی ہو جو انسان کو ملأ اعلیٰ سے ملا دیتے ہیں اور جن کی تاثیر براہ راست انسانی تصرفات و سلوک پر ہوا کرتی ہے۔
۳۔ فراغ حسي: یعنی وہ اوقات جنہیں آدمی اپنی بنیادی ضروریات اور نشاطات کی تکمیل کے بعد گزارتا ہے، اسی کو وقت الفراغ کہتے ہیں۔
ایک سچا مسلمان عادتاً عقلی اور روحانی فراغ کو نہیں جانتا کیونکہ اس کا قولی وعملی اسلامی
|