جب کوئی ذات اور شرور معاصی اور سلب پہلوؤں سے پاک و صاف ہوجاتی ہے تو وہ ایک فعال قوت بن جاتی ہے اور ذات انسانی کو مرتبۂ کمال تک پہنچانے کے لیے تعمیر وترقی، نشوو نما اور بلندی کا رخ پکڑ لیتی ہے۔
(ج)....گوشہ نشین سے لڑائی جھگڑے اور فتنوں سے نجات ملتی ہے، اور اس سے فتنوں میں پڑنے اور ان کے خطرات درپیش ہونے سے نفس اور دین کی حفاظت ہوتی ہے جب کہ فتنوں کے ظہور کے وقت لوگوں سے کنارہ کشی کی تاکید بھی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((إِنَّ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ،یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا۔ الْقَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنْ الْقَائِمِ،وَالْقَائِمُ فِیہَا خَیْرٌ مِنْ الْمَاشِی،وَالْمَاشِی فِیہَا خَیْرٌ مِنْ السَّاعِی، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: کُونُوا أَحْلَاسَ بُیُوتِکُمْ۔))[1]
’’یقیناً تمہارے آگے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند فتنے آنے والے ہیں، جس میں ایک آدمی صبح کو مومن رہے گا لیکن شام کو کافر ہوجائے گا، فتنوں کے اس دور میں بیٹھے رہنے والا شخص کھڑے رہنے والے سے، اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ایسے پرفتن دور میں آپ ہمیں کس طرح رہنے کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے وقت میں تم اپنے گھر کے پرانے کپڑوں کی مانند ہوجاؤ، یعنی اس وقت تم اپنے گھروں میں مقیم ہوجاؤ۔‘‘
جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کوئی فائدہ نہ ہو، اور اپنے اندر اتنی طاقت نہ ہو کہ دین کے اصول اور مبادیات پر عمل کرسکو، تواس وقت اپنے دین اور ذات کی سلامتی کے لیے گھر میں گوشہ نشین ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ تمہاری کھال کھینچی جائے۔
|