Maktaba Wahhabi

225 - 255
سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا۔‘‘ ایک حکیم سے پوچھا گیا کہ خلوت اور گوشہ نشینی کا مطلب اور فائدہ کیا ہے؟ بولے کہ اس سے مسلسل غوروفکر کی عادت ہوتی ہے، اور دلوں میں علوم کا ثبات ہوتا ہے کہ بندے پاکیزہ اور اچھی زندگی بسر کرسکیں اور معرفت کی مٹھاس چکھ سکیں۔ ایک دوسرے حکیم سے کہاگیا کہ آپ تو تنہائی پر بہت صبر کرنے والے ہیں ؟ توبولے کہ میں تنہا نہیں رہتا ہوں، میرے ہم نشیں اللہ تعالیٰ ہیں۔ (ب).... گوشہ نشین سے آدمی ان گناہ معاصی سے دور رہتا ہے جو عام طور سے لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے سے ہو جایا کرتے ہیں، جیسے غیبت، چغلی، ریا کاری اور لوگوں کے لیے آراستگی وغیرہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((تَجِدُمِنْ شِرَارِ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اللّٰہِ ذِا الْوَجْہَیْنِ یَأْتِیْ ہٰؤُلَائِ بَوَجْہِ وَہٰؤُلَائِ بِوَجْہِ۔))[1] ’’قیامت کے دن اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ بد بخت دورُخا شخص ہوگا، جو ایک چہرہ سے ایک جماعت کے ساتھ اور دوسرے چہرہ سے دوسرے لوگوں کے ساتھ ملتا ہے۔‘‘ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر گوشی نشینی میں ریا، تضع اور سماج میں رہ کر مداہنت کی آفتوں اور لوگوں کی رضا جوئی کے حیلوں کی آفتوں سے سلامتی کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوتا تو گوشہ نشینی کی ترغیب کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔‘‘[2]
Flag Counter