Maktaba Wahhabi

192 - 255
دے جس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اس فعل سے احتیاط کے سبب جس کے کرنے میں کوئی مضائقہ ہے۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جب تک متقین حرام کے ڈر سے بہت سی حلال چیزوں کو چھوڑتے رہے تب تک تقویٰ ان کے ساتھ رہا۔‘‘ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جب تک کوئی بندہ اپنے اور حرام کے درمیان حلال کو آڑ نہ بنا لے اور اثم اور اس جیسے دیگر گناہ کو چھوڑ نہ دے اس وقت تک ایمان کی حقیقت نہیں پاسکتا۔‘‘[1] شبہات کو چھوڑ دینا ایک عظیم مرتبہ ہے، جہاں تک صرف متقین ہی کی رسائی ممکن ہے کیونکہ شبہات کو اسی وقت چھوڑا جا سکتا ہے جب شرعی امور کے تحقق کے لیے نفس سے جہاد کیا جائے اور اسے مغلوب کرلیا جائے۔محمد المصری رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’مومن اپنے نفس کے علاج میں لگا رہتا ہے اور اپنی خواہشات اور رغبات سے جہاد کرتارہتا ہے یہاں تک کہ تقویٰ اس کے نفس میں جا گزید ہوجاتا ہے اور یہی اس کی خصلت اور فطرت بن جاتی ہے، پھرتو وہ اپنی پوری زندگی میں تقویٰ کا فائدہ پاتا رہتاہے، اس سے اس کا احساس بہت تیز ہوجاتا ہے، اس کا وجدان بلند ہوجاتا ہے اور غیر کے مقامات کا جلدی ادراک کرنے والا ہوجاتا ہے اور شر کے مقامات کا مکمل جانکار ہوجاتا ہے اور خیر وشر کے درمیان تمیز کرنے والا ہوجاتا ہے اسی طرح اس کی طبیعت سراپا خیر ہوجاتی ہے اور اس کی خواہشات خیر کے تابع ہوجاتی ہیں، اور شر کو ناپسند کرتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے ویسے ہی جیسے اسلام لانے کے بعد کفر کی جانب پلٹنے کو آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘[2]
Flag Counter