متصف ہونے کی کوشش کرے جن کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے اور جو بہت زیادہ ہیں، یہاں ان میں سے چند کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ الم () ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ () الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ () وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ () أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (البقرۃ: ۱، ۵)
’’الٓمٓ، اس کتاب(کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں، پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز کو قائم رکھتے ہیں، اور ہمارے دیے ہوئے(مال) میں سے خرچ کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔‘‘
ایمان بالغیب متقین کی اہم اور خاص خصوصیت ہے۔ (اور کیوں نہ ہو جب کہ) ایمان بالغیب ہی انسانی ضمیر کا ذاتی نگراں ہوتا ہے جو اس کی تمام حرکات، سکنات اور تصرفات کا شمار کرتا ہے، ایک عالم کا قول ہے:
’’درحقیقت غیب پر ایمان لانے والا ہی ہمہ وقت قیامت کے دن کے مشاہد کا احساس رکھتا ہے، وہ جب بھی دنیا کی مختلف انواع واقسام کی لذت اور نعمتوں کو دیکھتا ہے تو جنت کی ان نعمتوں کو یاد کرتا ہے جو ان سے بہتر اور باقی رہنے والی ہیں، پھر وہ صالح اور نیک اعمال کرنے میں جلدی کرتا ہے اور ایک صالح انسان بن جاتا ہے، اس کے برعکس جب وہ دنیا میں مختلف قسم کے شرور اور آگ کی شدت دیکھتا ہے اور اپنے نفس کو خود سر ہونے سے باز رکھتا ہے اور نفس کو مال
|