وقت تک و تقویٰ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[1]
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’اللہ رب العالمین سے ڈرنا، قرآن کریم کے مطابق عمل کرنا، معمولی چیز پر قناعت کرنا اور سفر آخرت کے لیے تیاری کرنے کا نام تقویٰ ہے۔‘‘[2]
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
﴿ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ ﴾’’أی أن یطاع فلا یعصی، ویذکر فلا ینسی، وأن یشکر فلا یکفر‘‘
’’یعنی، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، کا مطلب یہ ہے کہ، اللہ کی اطاعت کی جائے، اس کی نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے، اسے بھلایا نہ جائے، اس کا شکریہ ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔‘‘
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے جو حرام کر رکھا ہے اسے ترک کرنا اور جو فرض قرار دے رکھا ہے اسے ادا کرنا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی دے گا وہ خیر ہی ہوگا۔‘‘
طلق بن حبیب رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور کی روشنی میں اس کی اطاعت کر کے ثواب کی امید رکھنا، اس کے عطا کردہ نور کی روشنی میں اس کی معصیت و نافرمانی نہ کر کے اس کے عتاب وسزا سے ڈرتے رہنے کا نام تقویٰ ہے۔‘‘
تقویٰ کے بارے میں عبداللہ ابن المعتز کی مشہور نظم میں ہے:
|