جائیں تو اتنے بہتر طریقے سے نہیں جتنے کہ اپنے اصلی وقت میں ادا ہوتے ہیں، جیسے رات کی نیند، دن کی نیند جیسی نہیں، یا جیسے رات میں طلب معاش دن کی طرح نہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا () وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا ﴾ (النبا: ۱۰، ۱۱)
’’اور رات کو ہم نے پردہ بنایا اور دن کو ہم نے وقت روزگار بنا دیا۔‘‘
جس طرح رات و دن کے اوقات ضیاء وظلام میں خلل واقع ہوتا رہتا ہے، اسی طرح انسان کے یومیہ دوران عمل میں بھی(جسے ساعت داخلیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے) اثر انداز ہوتا ہے جس کا پورا اور کامل دارومدار رات و دن کی گردش، اور طبعی ضیاء وظلام پر مؤثر ہوتا ہے۔[1]
اسی وجہ سے بندوں پر اللہ تعالیٰ کی یہ لازوال رحمت ہے کہ اس نے رات ودن کی تخلیق فرمائی جن میں آدمی اسی مناسبت سے عمل کرتا ہے جس طرح وہ دونوں انسان میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ (القصص: ۷۳)
’’یہ اس کا ایک احسان ہے کہ اس نے تمہارے لیے دن اور رات مقرر کردیے تا کہ تم رات میں آرام کرو اور دن میں اس کی بھیجی ہوئی روزی تلاش کرو اور شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘
بے شک یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عظیم نعمت ہے، اس لیے ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے منعم حقیقی کا شکریہ ادا کرے، اور اس کا شکریہ اس طرح ادا ہوگا ہوگا کہ بندہ اپنی زندگی اور اوقات کوحتی المقدور اس فطری نظام کائنات کے مطابق ڈھال لے اور رات ودن کی جو عبادات اللہ تعالیٰ نے متعین کر رکھی ہیں انہیں ان اوقات
|