حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْقُرْآنُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ، وَمَا حَلَّ مُصَدَّقٌ، فَمَنْ جَعَلَہٗ إِمَامَہٗ قَادَہٗ اِلَی الْجَنَّۃِ۔ وَمَنْ جَعَلَہٗ خَلْفَہٗ سَامَّہٗ اِلَی النَّارِ۔)) [1] ’’قرآن شافع اور مشفع یعنی سفارشی اور سفارش قبول یافتہ ہے، اور تصدیق شدہ مناظر ہے، جس نے قرآن کو اپنا امام بنایا اس کو قرآن نے جنت میں پہنچایا، اور جس نے اسے چھوڑا اور اس سے روگردانی کی وہ جہنم میں گیا۔‘‘ ایک مومن قرآن کریم سے زندگی، کائنات، آخرت اور اپنے متعلق صحیح افکار وتصورات اور قواعد ومبادیات حاصل کرتا ہے، اور اپنے خالق حقیقی کو منشا کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے، حقیقت میں قرآن کریم ہی سے تربیت نفس اور احیاء ضمیر کا کامیاب راستہ پایا جا سکتا ہے۔ جو شخص بھی اپنے نفس کی تربیت کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرے، اسے یاد کرے، اس میں تدبر اور فہم و ادراک پر مداومت برتے، اور ان اہل ہوی وعصیان کے منہج سے دور رہے جنہوں نے اللہ کے کلا م کو چھوڑ رکھا ہے، جس کو کسی نے بھی قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگی گزاری تو گویا وہ زمین پر قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ ہے، بیشک قرآن کریم ہر فرد کے لیے بلا قیدزمان ومکان دستور حیات ہے۔ بہت سے مسلمان جو گمنامی اور تباہی کی زندگی گزار رہے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اس اصل ماخذ ومنبع سے دور ہوچکے ہیں، اس لیے ان نام نہاد مسلمانوں پر تعجب نہیں ہونا چاہیے جو ایک ماہ، تین ماہ، بلکہ پوراسال گزر جاتا ہے اور قرآن کا ایک جز یا ایک سورہ بھی نہیں پڑھ پاتے ہیں، اور نہ اس کے معانی ومطالب پر غورو فکر کر پاتے ہیں، اور نہ اس کے منشا کے مطابق عمل کرپاتے ہیں۔ بلاشبہ ایسے ہی لوگ امت محمدیہ کے لیے بوجھ اور بیکار اور بے فائدہ ہیں، اس کے برعکس وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم پر عمل کرتے ہیں، درحقیقت یہی لوگ اللہ کے خاص اور برگزیدہ بندے ہیں اور امت محمدیہ کے تمدن کا میزان وہی ہیں، اسی وجہ سے |