Maktaba Wahhabi

244 - 579
ہے۔ یعنی جو شخص عمل کے لیے سمجھ بوجھ حاصل نہیں کرتا، اس کا دل سخت ہو جاتا ہے۔ وہ عمل میں مشغول نہیں ہوتا، بلکہ کلمات کو ان کی جگہوں سے تحریف کر کے کتاب و سنت کے الفاظ کو ان کی جگہوں سے پھیر دیتا اور انواع واقسام کے لطیف حیلوں کے ذریعے نرمی اور گنجایش تلاش کرتا ہے۔ کبھی تو ان کو لغت کے بعید مجازات وغیرہ پر محمول کرتا ہے اور کبھی الفاظِ سنن میں طعن کرتا ہے، اس لیے کہ کتاب اللہ کے الفاظ میں طعن کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو شخص نصوص کو ان کے حقیقی معانی پر جاری کرتا ہے۔ یہ لوگ اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس کا نام جاہل یا حشوی رکھتے ہیں۔ یہ بات ان فقہاے رائے، صوفیہ اور فلاسفہ ومتکلمین میں موجود ہے جو اصول دیانات میں کلام کرتے ہیں۔ دوسری چیز علم نافع کا بھلا دینا ہے جن کی انھیں نصیحت کی جا چکی ہے۔ اب ان کے دل اسے نصیحت نہیں کرتے، بلکہ جو شخص ایسی بات سیکھتا ہے جس سے رونا آئے یا اس کا دل نرم پڑے تو اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس کا نام ’’قصہ گو‘‘ رکھتے ہیں۔ اہلِ رائے نے اپنی کتابوں میں اپنے بعض شیوخ سے نقل کیا ہے: ’’علوم کے ثمرات ان کے شرف و مقام پر دلالت کرتے ہیں، پس جو شخص علم تفسیر میں مشغول ہوا تو اس کی غایت و انتہا یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے بیان کرتا اور انھیں نصیحت کرتا ہے، اور جو شخص ان [اہلِ رائے] کی رائے اور ان کے علم میں مصروف ہوا تو یقینا وہ فتوی دیتا ہے، فیصلے کرتا ہے، حکم لگاتا ہے اور درس دیتا ہے۔‘‘ یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں میں شامل ہیں جو دنیا کی ظاہری زندگی کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔ ان لوگوں کو اس کام پر آمادہ کرنے والی چیز دنیا کی شدید محبت اور اس میں ترقی کی خواہش ہے۔ اگر یہ لوگ دنیا میں زاہد، آخرت میں راغب اور اپنے نفس اور اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرنے والے ہوتے تو یہ اس چیز کے ساتھ تمسک کرتے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے اور لوگوں کے لیے لازم کی ہے۔ اکثر لوگ تقوے سے باہر ہونے لگے، حالانکہ ان کو کتاب وسنت کی نصوص کفایت کر سکتی تھیں۔ اس لیے اللہ تعالی ان لوگوں میں سے، جن کو نصوص کے معانی کا فہم حاصل ہے، کچھ ایسے لوگ مقرر فرماتا ہے جو قرآن و حدیث سے نکلنے والوں کو کتاب وسنت کی طرف پھیر لاتے ہیں اور وہ ان باطل فروع اور حرام حیلوں سے، جو ریاکاری کے دروازے کھولنے کا سبب
Flag Counter