Maktaba Wahhabi

79 - 579
[اور یہ کہ بے شک اللہ نے یقینا ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے] اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم اس کی دیگر بڑی صفات میں سے سب سے بڑی صفت ہے، اس لیے اس نے فرمایا ہے: ﴿ وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ﴾[الأنعام: ۵۹] [اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا] اس عقیدے سے ’’شرک فی العلم‘‘ کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ قدرت: جتنی بھی ممکنات ہیں، وہ ان سب پر قادر ہے۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ قدرت سے مراد یہ ہے کہ وہ عالم کو ایجاد کرے یا نہ کرے، وہ قادر ہی ہے۔ اس کا فرمان ہے: ﴿ اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ بَلٰی وَھُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ﴾[یٰس: ۸۱] [اور کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے اور پیدا کر دے؟ کیوں نہیں اور وہی سب کچھ پیدا کرنے والا ہے، سب کچھ جاننے والا ہے] ارادہ: ساری کائنات اس کے ارادے کے ساتھ ہے۔ یہ ارادہ دو طرح کا ہے۔ ایک قدریہ کونیہ خلقیہ جو تمام موجودات کو شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾[الأنعام: ۱۲۶] [تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے، اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے] دوسرا ارادہ دینیہ امریہ شرعیہ ہے، جو محبت و رضا کو متضمن ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
Flag Counter